بدھ، 19 فروری، 2014

ایک نا مکمل کہانی

محمد علم اللہ اصلاحی

"یار! میری ماں کتنا غصہ کرتی رہتی ہے، میں اسے خوش دیکھنا چاہتا ہوں، پر وہ کبھی ہنستی ہی نہیں ہے۔"
"تو نے کبھی پوچھا نہیں وہ ایسا کیوں کرتی ہے؟" غفار نے سوال کیا۔
"ارے یار! میرے باپ کی وجہ سے۔تمہیں پتا ہے نا وہ ہم لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا نا، اس لیے ممو کو لگتا ہے کہ ایک دن میں بھی اسے چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا۔ بھائی! میں ایک بار ممو کو ہنستے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔"
"سچ بتاؤں تیرا باپ مجھے مل گیا نا تو اُسے میں گولی مار دوں گا۔" غفار نے اعلان کیا۔
٭٭٭
                                        
گاڑی کی آواز۔۔۔ گھڑ گھڑ گھڑ۔۔۔
ابھی دونوں کی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ کوڑے کے ڈھیر میں مزید کوڑا لے کر کوڑا ڈالنے والا ٹرک وہاں آ گیا۔ کوڑا چننے والے لڑکے اس کے پیچھے یوں بھاگنے لگے جیسے انھیں ان کی کھوئی ہوئی متاع مل گئی ہو۔
بات ختم کیے بغیر ہی چندو اور غفار بھی ان میں شامل ہو گئے۔
سب  لڑکے پلاسٹک، ٹوٹے جوتے چپل اور پانی کی خالی بوتلیں بورے میں بھرنے لگے۔وہ  ایک دوسرےسے دھکا دھکی کر کے خود ہی سارا سامان سمیٹ لینا چاہتے تھے۔
پیٹ اور غربت ایک ایسی چیز ہے جس کی خاطر انسان بہت کچھ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔  دوپہر کو جب سارے لوگ کھا پی کر کام کے لیے نکل چکے ہوتے ہیں یا قیلولہ کر رہے ہوتے ہیں، یہی بچے  چپکے سے گھروں کا سامان چوری کرتے ہیں اور اونے پونے داموں بیچ دیتے ہیں۔ یہ غریب بچے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انھیں اسی میں مزہ آتا ہے۔
اس وقت بھی یہ کوڑے کے ڈھیر سے سامان چننے میں ایسے منہمک تھے جیسے کروڑوں کی جائیداد پا رہے ہوں۔
چندو سب کو دھکا دیتے ہوئے آگے بڑھا۔ اسے کچھ نظر آیا تھا ، اس نے لپک کر اسے اٹھایا۔ تو اسے لگا کہ یہ کچھ عجیب سی چیز معلوم ہوتی ہے۔
وہ ایک ٹوٹا ہوا کیمرا تھا جسے کسی نے خراب ہو جانے کے بعد پھینک دیا تھا، مگر غریب چندو کو اس کی کیا خبر۔ وہ اسے اُلٹ پلٹ کر ایسے دیکھتا رہا جیسے کوئی بہت قیمتی چیز اس کے ہاتھ لگ گئی ہو، پھر اچانک اسے یاد آیا، اُس نے ایسا ہی کچھ اپنی مالکن کے گھر بھی دیکھا تھا جہاں اس کی ماں کام کرنے جایا کرتی تھی۔
ابھی وہ اسے کھول کر دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کے دوست غفار نے اس کے ہاتھوں سے کیمرا چھین لیا۔ اور بھاگ کھڑا ہوا۔ چندو بھی کوڑے کے ڈھیر کو پار کرتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔
تھوڑی دور تک دونوں آگے پیچھے دوڑتے رہے، آخر چندو نے دوڑ کر اسے پکڑ ہی لیا اور پھر دونوں کھکھلا کر ہنسنے لگے۔
"سالے لے کر کہاں بھاگ رہا تھا؟" چندو نے ہانپتے ہوئے پوچھا۔
"میں تو مذاق کر رہا تھا، تو تو سچ سمجھ بیٹھا۔" غفار مسکرایا۔
"چل لا دے۔" چندو ے جیسے غفار کی خوشامد کی۔
"نہیں دوں گا۔" غفار نے مذاق کے طور پر منع کیا۔
"دے گا یا نہیں، یہ مجھے ملا ہے، اس لیے یہ میرا ہے۔" چندو غصے کا اظہار کرتے ہوئے ہاتھ جھٹک کر بولا۔
"لے سالے، تو نے دکھا دی نا اپنی دوستی۔" غفار نے ذرا غصہ ہو کر وہ کیمرا اس کی طرف بڑھایا۔
"ابے یار! تو تو غصہ ہو گیا۔ میں دیکھنا چا ہ رہا تھا کہ یہ کیا ہے، اس لیے بھاگ رہا تھا تیر ے پیچھے۔" چندو ہنستے ہوئے کہنے لگا۔
"کیمرا ہے، کیمرا۔ "غفار نے بتایا۔
"کیا کہا؟ کیمرا۔۔۔ !! کیا ہوتا ہے یہ؟" چندو کو حیرت ہوئی ۔ ایسی کیا چیز ہو سکتی ہے جو چندو کو نہیں معلوم لیکن غفار اس سے واقف نکلا۔
"فوٹو کھینچتے ہیں اس سے۔" غفار نے جواب دیا۔
"لے یہ تو آن بھی ہو گیا۔" یہ کہتے ہوئے غفار خوشی سے ناچنے لگا۔
"چل، میں تیری تصویر کھینچتا ہوں۔" سامنے جا کر کھڑا ہو جا۔" تھوڑی دیر رک کر اس نے کہا۔
چندو کو یقین تو نہیں آ تا،لیکن وہ دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔
"ابے ہنسے گا بھی یا ایسے ہی بندر کی طرح تصویر کھنچوائے گا" غفار نے مضحکے سے کہا۔
"میں کیوں ہنسوں؟ تیری لوگائی ہوں کیا " چندو ہنستے ہوئے بولا۔
"سالے! تصویر كھنچوانے کے لئے ہنسنا پڑتا ہے۔"غفار نے جواب دیا۔
"اچھا تو ایسے بول نا۔" یہ کہہ کر چندو کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔
"اچھا یار! یہ بتا، اگر میں اپنی ماں کی تصویر كھینچوں گا تو وہ ہنسے گی؟"چندو نے معصوم بچوں کی طرح سوال کیا۔ بھلا دس بارہ سال کے بچے کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔
"ہاں، کیوں نہیں۔" غفار جواب دیتے ہوئے کیمرے کا زاویہ درست کرنے لگا۔ "تصویر كھنچوانے کے لئے ہنسنا ہی پڑتا ہے۔"
"چل ٹھیک ہے، تو مجھے سکھا میں اپنی ممو کی تصویر کھینچوں گا۔"چندو خوش ہو کر بولا۔
٭٭٭

چندو آج کچھ زیادہ ہی خوش تھا۔ اس کے ذہن کے دریچے میں مختلف قسم کے خیالات آرہے تھے۔ برسوں بعد وہ اپنی ممو کو ہنستا ہوا دیکھے گا، کتنا مزا آئے گا!!!
وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا، "ممو سے ہنسنے کو کہوں گا تو وہ ہنستے ہوئے کتنی اچھی لگے گی۔"
ابھی وہ انھی خیالات میں گُم تھا کہ غفار نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "بھائی! تیری بوری پھٹ گئی۔"
اس کی تو جیسے جان ہی نکل گئی، وہ جلدی سے بوری زمین پر رکھ کر دیکھنے لگا۔
"یہ تو ٹھیک ہے۔" چندو نے پھر بوری کندھے پر اٹھا لی اور مسکراتے ہوئے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭

’ممو۔۔۔ ممو۔۔۔۔!!‘ گھر پہنچ کر چندو اپنی ممو کو خوش خبری سنانے ہی لگا تھا کہ ممو کہتی ہے:
"ہے، آ گیا نکھٹو! چل جا پہلے نہا لے!!"
"ممو۔۔۔۔ ممو۔۔۔ !!" اس کی آواز گلے میں ہی اٹک گئی۔
ممو ایک دم چلا کے بولی: "جا، پہلے نہا لے، بدبو آ رہی ہے۔"
اس کی ماں نے اس سے بورا چھین کر ایک کنارے پر رکھ دیا اور دو بوریوں سے جوڑ کر بنائے گئے غسل خانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی  "جا جا۔۔۔ پانی گرم ہے۔ جلدی جا!"
غسل خانے میں  آدھے کٹے ڈرم میں پانی اور مگ رکھا تھا۔ وہیں پیڑھا اور صابن دانی بھی۔"
بلآخر چندو بغیر کچھ بولے نہانے چلا گیا، مگر اس کے ذہن میں کیمرا اور اس کی ممو کی ہنسی ٹی وی کے اسکرین کی طرح چل رہی تھی۔
وہ گنگنانے لگا "آج تو ہنساؤں گا۔۔۔ تم کو دکھاؤں گا۔۔۔ "
٭٭٭

اسی دوران ایک کباڑی چیختا ہوا گلی سے گزرا "کباڑی والے۔۔۔ ردی پیپر والے۔۔۔ پرانا لوہا برتن۔۔۔ پلاسٹک والے۔۔۔ "
ادھر غسل خانے کے اندر پانی کی آواز اور گانے کے سُر میں چندو کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ غسل خانے سے باہر کیا ہونے لگا ہے۔
ممو بھی حقیقت سے بے خبر چندو کا بورا اٹھا کر لائی اور اسے كباڑي کو دے دیا ۔ كباڑي اس کوڑے کے مناسب دام دے کر چلتا بنا۔
تھوڑی دیر بعد چندو خوشی خوشی غسل خانے سے نہا دھو کر نکلا تو اس کی نظر بوری کی طرف ہی پڑی۔ مگر وہاں بوری نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر وہ چلایا۔۔۔ "ممو! بورا۔۔۔ ؟"
"وہ تو میں نے کباڑی والے کو دے دیا " ممو نے بتایا۔
چندو کے تو جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرک گئی۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں آ گیا۔  پھر اچانک ممو سے بغیر کچھ کہے گلی کی طرف دوڑ لگا دی۔ لیکن گلی میں دور تک کہیں بھی کباڑی دکھائی نہیں دیا۔ دور کہیں اُسے سائیکل کی گھنٹی کی آواز سنائی دیتی اور وہ پھر دوبارہ ادھر ہی دوڑنا شروع کر دیتا۔ آخر وہ کباڑی اسے نظر آ گیا۔ اس کی سانسیں پوری طرح پھولی ہوئی ہوتی ہیں، چندو گھبرائی ہوئی آواز سے پوچھنے لگا "ن نن ۔۔ نالے۔۔ کک۔۔کے پپ۔۔پا ۔۔س مم۔۔۔ میرے۔۔۔ گھ۔۔۔ گھر۔۔ سے۔۔۔ جج۔۔۔ جو کباڑ لیا ہے وہ کہاں ہے؟"
"وہ تو میں اصغر کباڑی کی بڑی دکان پر دے آیا۔" کباڑی نے جواب دیا۔
چندو نے ٹھیے کی طرف تیزی سے دوڑ لگا دی۔اصغر کی دوکان پر ہر طرف کباڑے کا ڈھیر تھا، پرانی بوتلیں ایک طرف، پلاسٹک کا سامان ایک طرف۔ اس سے پہلے کہ وہ اصغر سے کچھ پوچھتا،  اس کی نظریں ایک طرف پڑیں اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک بوڑھا آدمی جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا تھا وہ ہتھوڑے والا ہاتھ اوپر کیے کیمرے کو دیکھ رہا تھا۔ چندو ابھی آواز دے بھی نہیں پایا تھا کہ بوڑھے نے کیمرے پر اپنی پوری قوت کے ساتھ ہتھوڑا چلا دیا۔
٭٭٭

بظاہر یہاں تک تو کہانی مکمل ہے۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔
لیکن اتنی غربت اور ماحول نا سازگار ہونے کے باوجود چندو کالج تک کیسے پہنچ گیا۔۔۔۔۔چندو نے جب اتنی بات مجھے بتائی تھی تبھی مجھے یہ پوچھ لینا تھا؟
لیکن میں نے کیوں نہیں پوچھا؟ مجھے یہ بات برابر کچوکے لگاتی رہتی۔
ایک دن موسم معمول پر تھا۔ میں ذرا جلدی ہی کالج پہنچ گیا تھا۔ سوچا وقت گزاری کے لیے کینٹین میں چائے کی چسکیاں ہی لے لوں۔کینٹین پہنچا تو دیکھا چندو وہاں ایک کتاب لیے سر جھکائے بیٹھا تھا۔
وہ ایک کتاب یا ڈائری تھی، میں اس کے قریب گیا۔ سلام کیا اور پوچھا، "بھائی چندو! اس دن تم نے ادھوری کہانی سنائی تھی، اس کو مکمل تو کرو۔"
وہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولا "ارے بھئی! وہ کہانی نہیں تھی۔ بس ایسے ہی کچھ چیزیں یاد آئیں تو میں نے سنادیں۔"
"ہاں، تو پھر بتاؤ نا کہ تم نے پڑھائی کیسے مکمل کی؟ تم تو کوڑا چنتے تھے، جیسا کہ تم نے بتایا تو پھر تم کالج تک کیسے پہنچ گئے؟" میں نے اسے پھر کریدا۔
"بھائی! یہ ایک بہت لمبی داستان ہے،نہ پوچھو تو بہتر ہے۔" چندو بولا۔
میں نے مزید کریدنے کی کوشش کی تو وہ کہنے لگا:
"کچھ خاص نہیں، بس پھر معمول کے مطابق زندگی گزرنے لگی۔ میں بھی ساری چیزیں بھول بھال گیا۔ اسی درمیان میں اچانک ممو کیایک دن طبیعت خراب ہوئی اور میں ان کی صحت کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ وہ ملیریے کی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئی۔" اس کے آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔
میں نے کہا: "اچھا، چلو چھوڑو، پھر کبھی بات کر لیں گے۔"
"پھر کیوں؟ جب سننا ہی چاہتے ہو تو سن لو۔" وہ کہنے لگا۔ "جب ممو کا انتقال ہوا تو گویا میری زندگی ہی لٹ گئی۔ میں تنہا رہ گیا۔ ایکدن حکومت کے آرڈر سے ساری جھگیوں کو ڈھا دیا گیا اور پھر تو میں بے گھر بھی ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے نظام الدین ریلوے اسٹیشن کو اپنی جائے پناہ بنایا۔ لوگ مجھ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے۔ بہت سارے لوگ ڈانٹ کر بھگا بھی دیتے۔ ممو کا کہا یاد آتا تھا کہ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا۔ میں نے یہی سوچ کر کچھ کام کرنے کا سوچا۔ ایک دن ایک بوڑھے کو دیکھا، اس کے ہاتھ میںایک بیگ تھا۔ مجھے لگا یہ کوئی باہر سے آیا ہے۔ اسی سے کچھ پیسے مانگ لوں، لیکن میری ہمت نہیں ہوئی۔ بہت ہمت کر کے میں ان کے قریب گیا اور کہا: "میں آپ کا سامان وہاں تک پہنچا دوں گا، آپ مجھے دس روپئے دیں گے؟" انھوں نے تھوڑی دیر تک میرا جائزہ لیا پھر کہنے لگے: "چلو میرے، پیچھے چلو۔"
میں ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ وہ مجھے گھر لے کر گئے۔" چندو سانس لینے کے لیے رکا، مگر مجھے بے صبری تھی۔
"پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ کیا ہوا؟" میں یہ پوچھنا ہی چاہتا تھا کہ چندو رُک کر اچانک گھڑی دیکھنے لگا اور بولا
"دیر ہو گئی۔کہیں آج بھی ابسنٹ نہ لگ جائے، مجھے جانا پڑے گا۔" یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میرے اندر یہ جاننے کی خواہش بر قرار رہی کہ اب اس سے آگے کیا ہوا ہوگا۔
اتفاق سے لنچ کے وقت پھر چندو سے ملاقات ہو گئی۔
میں نے پوچھا: "چندو! تم کس کورس میں ہو اور کس کلاس میں پڑھتے ہو؟"
تھوڑی دیر کے لیے وہ مجھے دیکھ کر ٹھہر سا گیا۔ میرے ہاتھ میں کیمرا تھا۔ اسے وہ بڑی حسرت سے دیکھنے لگا۔
 "چندو! کیا ہوا؟ کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔" میں نے اس کو ٹہوکا دیتے ہوئے پوچھا۔
چندو ایسے چونکا جیسے اس کا ذہن کہیں اور ہو پھر کہنے لگا: "مم۔۔۔ میں پڑھائی نہیں کرتا، میں تو کام کرتا ہوں۔"
پھر میں نے پوچھا: "ابھی صبح تم نے کہا تھا، آج پھر ابسنٹ نہ ہو جاؤں، مجھے جانا پڑے گا تو تم کہاں گئے تھے؟"
"بھیا! میں یہاں تین مہینوں سے کام کر رہا ہوں۔ پچھلے مہینے میں آیا، لیکن ٹریفک کی وجہ سے کچھ دیر ہو گئی تو ٹھیکے دار نے پیسے کاٹ لیے، آج کل اسی لیے جلدی آنے کی کوشش کرتا ہوں۔"
اور پھر میرے کیمرے کو چھوتے ہوئے کہنے لگا: "بھیا۔۔! مجھے بھی کیمرا چلانا سکھاؤگے؟"
میں نے کہا: "ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔۔۔ ؟ لیکن۔۔ لیکن تم یہ سیکھ کر کیا کرو گے؟"
وہ کہہ رہا تھا: "بھیا! میں لوگوں کو مسکراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ فوٹو کھنچواتے وقت مسکرانا پڑتا ہے نا۔۔۔ "
وہ نہ جانے اور کیا کچھ کہہ رہا تھا، مگر میں سوچ رہا تھا کیا چندو کی کہانی مکمل ہو گئی۔۔۔ ؟