جمعرات، 7 مارچ، 2013

اے کاش!!!


محمد علم اللہ اصلاحی
کتنے ہی خیالات جگنووں کی طرح دماغ کی تاریکیوں میں آتے ہیں ، جگمگاتے ہیں،مگر پھر فوراً بجھ جاتے ہیں۔ میں انھیں پکڑنے کے کئی کوشش کرتا ہوں۔ ان میں سے کبھی کوئی جگنو ہاتھ آیا تو آیا۔ نہیں تو یہ عمل رات بھر جاری رہتا ہے۔صبح کے اجالے میں جب یہی جگنو تتلی بن جاتے ہیں تو اور زیادہ دل لبھانے لگتے ہیں۔ میں بے اختیار اپنی ہتھیلیاں ان کے آگے پسار دیتا ہوں، لیکن تب بھی کوئی تتلی کہاں میری ہتھیلی پر آکر بیٹھتی ہے۔ اے کاش! یا تو تاریک شب اور دراز ہو جائے، تاکہ میں کسی جگنو جیسے جگمگاتے خیال کو گرفت میں لاسکوں یا میری ہتھیلیوں پر پھولوں سی وہ تازگی آجائے کہ بکھرے مگر نکھرے خیالات کی ادھر سے ادھر اڑتی تتلیاں ان پر آ بیٹھے۔
 !!!اے کاش




1 تبصرہ جات:

راحیل فاروق نے لکھا ہے کہ

کیا طرزِ نگارش ہے۔ سبحان اللہ!
بہت پیارا لکھتے ہیں آپ۔ اللہ ترقی اور مداومت عطا فرمائے۔ آمین۔