جمعرات، 8 اگست، 2013

رمضان میاں

رمضان میاں
محمد علم اللہ اصلاحی
جیسے جیسے عید کا دن قریب آ رہا تھا رمضان میاں کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔ سال کے بارہ مہینوں میں ایک رمضان ہی کے مہینےمیں تو اسےکچھ سکون میسر آتا تھا ۔اب وہ بھی ختم ہونے کو تھا ۔کچھ سال پہلے تک حالات اتنے دگرگوں نہ تھے ۔وہ محنت مزدوری کرکے دن میں ستر اسی روپے کما لیتا تھا اور کسی نہ کسی طرح گھر کا خرچ پورا ہو جاتا تھا، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے کمر توڑ مہنگائی اور اقتصادی بحران نے تو جینا ہی مشکل کر دیا تھا۔اب اس قلیل آمدنی میں پورے گھر کا خرچ چلانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ روزگار کے مواقع بھی کچھ بہتر نہ تھے۔ اور اوپر سے حکومت کی نت نئی پالیسیوں نے تو سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔

ان حالات میں ایک مزدور کی گزر اوقات بہت مشکل ہو گئی تھی۔ گھر میں ایک بوڑھی ماں، بیوی اور تین بچے تھے، چھ افراد کے اخراجات کسی پہاڑ سے کم نہ تھے۔ بڑوں کو تو سمجھایا جا سکتا تھا لیکن بچے ماننے میں کہاں آتے تھے ۔ ان کو تو بس ایک ہی دھن تھی کی عید آ رہی ہے اب نئے کپڑے بنیں گے گھر میں سویّاں تیار ہو گی۔اوروں کی طرح ہمیں بھی عیدی ملے گی ۔

رمضان شروع ہوا تو تھوڑا سکون ملاتھا۔ چلو اب ایک وقت ہی کےکھانے کا بندو بست کرنا پڑے گا۔ بیمار ماں نے بھی روزے رکھنے شروع کر دیئے کہ اس بہانے بیٹے کو کچھ سکون ملے گا۔ بیوی نے ان بچوں کو جن پر ابھی روزے فرض بھی نہ ہوئےتھے ثواب کا لالچ دے کر روزے رکھنے کے لیے راضی کر لیا تھا۔ اب صرف ایک وقت کے کھانے کا امکان باقی تھا۔ اس کے علاوہ بستی کے کھاتے پیتے لوگ بھی کبھی کبھی افطاری کے نام پر کچھ پکوان اور پھل وغیرہ بھیج دیتے ، جس سے کچھ گزر اوقات ہو جاتی تھی۔

رمضان میاں سوچ رہے تھے، عیدآنے کو ہےلیکن یہ مہینہ تو جیسے پر لگا کر اڑتا جا رہا تھا بس اب آخری چار دن باقی رہ گئےتھے ۔عیدآنے کو ہے۔ اب کیا ہوگا؟ بچوں کے کپڑے کہاں سے بنیں گے؟ گھر میں سوئیاں وغیرہ کا تو کوئی انتظام ہی نہیں ہے، اور آگے پھر سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا پڑے گا ۔کاش کہ ساری عمر رمضان کا ہی مہینہ ہوتا۔