پیر، 3 ستمبر، 2012

پیچھے چھوٹتا گاؤں اور چکا چوند میں بھٹکتے نوجوان



محمد علم اللہ اصلاحی
آدمی سکون کی تلاش میں کتنی ہی دور کیوں نہ چلا جائے آخر کار لوٹ کر اپنے احباب کی طرف ہی آتا ہے ۔اپنے پرانے دنوں کے بارے میں سوچ کر اور اپنے اس بچپن کی زندگی کو یاد کر کے ذرا خوش ہو لیتا ہے لیکن پھر وہی شام ،وہی رات اوروہی تنہائی ہوتی ہے ۔ مجھے یہاں آنے سے پہلے معلوم تھا کہ پر دیس میں لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے جب یہاں سے کوئی گھر جاتا تو میں اس سے کچھ پوچھوں یا نہ پوچھوں یہ ضرور پوچھتاکہ وہاںکیسا لگتا ہے، یہ میں اس سے صرف اس کی دلی کیفیات معلوم کرنے کے لئے پوچھتا تھا اورنتیجہ صد فی صد یہی نکلتا تھا کہ وطن سے باہر سب کچھ ہے لیکن سکون نہیں ہے ۔اور آج میںخود اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔ہاں اگر سکون پیسے کو کہتے ہیں تو یقینا سکون یہاں حاصل ہے لیکن میں اس کا ہمیشہ سے مخالف رہا ہوں ۔میں یہ نہیں کہتا کہ پیسے کے بغیر آدمی خوش رہتا ہے ،پیسہ بھی ایک ضروری شئے ہے جینے کے لئے لیکن سب کچھ اسی کو سمجھ لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ۔ یار !حقیقت میں آرام کس کو کہتے ہیں یہ وہی بتا سکتا ہے جو رات کی تنہائی میں آرام سے مٹی کے بنے مکان کے چھپر کے نیچے کھٹیے پر لیٹا ہو اور بارش کی بوندیں کانوں میں رس گھول رہی ہوں ۔حقیت میں سکون وہی ہے اور زندگی کا اصل مزا اسی میں ہے کہ ماں باپ ،بھائی بہن اور دوست احباب سب آنکھوں کے سامنے ہوں“۔یہ میرے ایک دوست عارف حبیب کے خیالات ہیں جسے انھوں نے دبئی جانے کے بعد مجھے ایک میل کے ذریعہ بھیجا ہے ۔

اپنے دوست کی یہ تحریر پرھ کر میں اپنے آنسووں کو ضبط نہیں کر سکا اور سچ پوچھئے تو اسی وقت میرے کانوں میں میرے ایک قریبی بزرگ کا یہ فقرہ گردش کرنے لگا جب انھوں نے مجھے چھٹی میں مصروفیت کا بہانہ کرکے اپنے گاں ناجانے کی مجبوری ظاہر کرنے پر ہنستے ہوئے کہا تھا ”میاں! بڑے بڑے طرم خاں گاؤں میں ہی پیدا ہوئے، بہت اونچے تک اڑے، آخر کار گاشں میں ہی آکر پناہ لینی پڑی“ ۔واقعی بزرگ کا کہنا اپنی جگہ پر بالکل درست تھا ،صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو آج بھی بہت سے لوگ دہلی ،ممبئی میں بھلے رہتے ہوں،اگر ان کے قلم میں گاؤں کا رنگ نا ہو توتحریر پھیکی سی لگتی ہے۔کئی مرتبہ دل بہلانے کے لئے بہت سے کام مجبوری میں کرنے پڑتے ہیں۔ افسوس کہ جو ہماری ذمہ داری کا حصہ ہے، وہی اداکاری کے مندرجات بنتی جا رہی ہے۔کئی ماں باپ تو بیچارے اپنے بچوں کی اداکاری سے ہی اپنا جی بہلا کر زندہ رہتے ہیں۔ بوڑھے لوگ شہر میںجا بسے اس جواں نسل کی واپسی کے لئے اپنے باپ دادا کی پراپرٹی کے حقوق کا کیالالچ دیں گے یا طمع پیدا کریں گے یہ نسل تو پہلے سے ہی لاکھوں کے پیکیج میں الجھ گئی ہے، جب ان کے والدین پڑھائی لکھائی کے وقت پیسے دے کر بسوںاور ٹرینوں سے رخصت کرنے جایا کرتے تھے ،وہ ان کی ہر تکلیف کا خیال رکھتے تھے لیکن ہم سب بھول گئے۔

سنیما اور کتابوں میں گاؤں کی ساکھ بھلے ہی گھٹتی بڑھتی رہی ہو،لیکن شہری زندگی جینے والے نوجوانوں کے دل میں گاؤں اور وہاں کی یاد ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔تب وہ چاہے شہر میںٹھہرے ہوں یا گاؤں میں ہی جمے ہوئے ہوں۔ یہ تو وقت کی کروٹ اور گردش ہی ہے جو تمام ہم عمر کے نوجوانوں کے ان زندہ نقوش کو بھی مٹانے میں لگی ہے۔ بے چاروں کو مصروفیت ہی اتنا گھیرے رکھتی ہے کہ انھیں ماں باپ سے ملنے تک کی فرصت نہیں۔ہمارے کئی ساتھی تو ان لہروں کی اٹھان کو ایک نظر دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ چھٹیاں گزارنے گاؤں آئے ایک نوجوان کی کہانی اکثرگاؤں میں رہنے والے دوجے نوجوان کی کہانی سے میل کھاتی ہے۔د یہات میں پلے بڑھے اور اب شہر میں جاٹھہرے صاحبزادوں کو کون سمجھائے کہ جائے پیدائش کیا ہوتی ہے جسے ہم عبور کرتے ہوئے بہت آگے چلے گئے ہیں۔کس میں ہمت ہے جو بیٹھ کر ان راہ بھٹکے دوستوں کو راستہ دکھا دے۔

کاش یہ جوان آنکھیں سمجھ پاتیں کہ کیوں گاؤں سے شہر کی واپسی پر ماںباپ کا منہ روہا نسا ہو جاتا ہے۔ وہ آخر تک کچھ باتیں یاد دلاتے رہتے ہیں۔ہم گاڑی اسٹارٹ کر کے آگے بڑھنے کے انتظار میں ریس پر ہاتھ رکھے رہتے ہیں۔ہکارے بھرتے ہوئے آخرہم انتہائی جدید اولاد آگے بڑھ ہی جاتے ہیں۔ اور اس سفر میں پھر سے ایک بار نہ صرف گاؤں پیچھے چھوٹتا ہے بلکہ حال زندگی ،زندہ ماں باپ ،رشتے ناطے ،دوست احباب سب چھوٹ جاتے ہیں۔ بوڑھے ماں باپ وہاں اپنا سارا وقت ہم ناچیز وں پر خرچ کرتے ہیں۔ اور ادھر ہم بے مطلب کی چیزوں میں الجھ جاتے ہیں،اور حالات رشتوں تک کا تعاقب نہیںکر پاتے ہیں۔ عجیب زندگی ہے کبھی کبھی اپنے آپ پر بہت ترس آتا ہے۔خود کو ہی کٹہرے ے میں کھڑا پاتے ہیں۔ خود کو سزا دینے کی بات سوچتے ہی ہیں کہ اچانک اسی شہر کا کوئی ضروری کام یاد آ جاتا ہے۔ کوئی نئی سیمناریں آواز لگاتی ہیں، پریس کانفرنسیںبلاتی ہیں یا دوستوں کے ساتھ شامیں۔ جہاں ہم چائے پینے کے علاو کبھی کچھ مثبت کام شاید ہی کر پاتے ہیں۔

ہم اپنے ضروری کاموں کی فہرست میں وقت نکال کر گاؤں فون لگانا یا کہ پھر گاؤں کو اپنے خیالات کے مرکز میں لانا کبھی کبھار ہی شامل کر پاتے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم بھول جاتے ہیں کہ بوڑھے والد صاحب کیسے آٹا پسانے کے لئے چکی لاتے لے جاتے ہوں گے۔کیسے چار دن تک نل کے پانی نہ آنے پر دور پانی کی خاطر پیدل جاتے ہوں گے۔ مہینہ ختم ہوتے ہی اگر تنخواہ وقت پرنہ ملی تب بھی دوسروں سے قرض لیکر ہمارے اکاونٹ میں روپئے ڈالنے کے لئے رم جھم بارش، شدید دھوپ کی تپش اور لوگوں کی دھکا مکی سب برداشت کرتے ہوئے لمبی لائن میں دیر تک کھڑے رہتے ہونگے۔ماں گھر میں گیس سلینڈر ختم ہو جانے پر لکڑی کے چولھے میں دھواں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کے باوجود کھانا بناتی ہوگی ۔ہمیں لگتا ہے کہ ان کے پا س کو ئی مصروفیت نہیں ہوتی ہے۔اور ہم ادھر کتنے مصروف ہیں، ہمارے پاس خرچ کرنے کو اتنا وقت بھی نہیں کہ ہم اطمینان سے اپنی جائے پیدائش کو یاد کر سکیں۔گندگی میں لت پت رہنے پر بھی گلے لگا لینے والی اس ماں سے ٹھیک سے بات کر سکیں۔ اگر ماں ہے اس وقت تک تو اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے، افسوس یہ پکی بات ہے کہ بعد کے سالوں میں کتنے ہی سرپیٹ لو ہاتھ کچھ نہیں آنے والا، جب ماں نہیں رہے گی۔

یہ کسی ماضی کی بحث کی جگالی نہیں بلکہ ماضی کے احساس کے خیال کا حصہ ہے۔ والد صاحب کی آنکھوں کے آگے کیریئر میں بڑھتے ہوئے بچے جانے کب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، اس کے پیچھے کی اصل وجوہات اور بعد کے نتائج جیسے موضوع آج کی تحقیقی مرکز ہو چلے ہیں۔ اس پورے کھیل میں والد صاحب کو فریب دینا سیکھ چکی ہماری نوجوان نسل خود دل ہی دل میں جانتی ہے۔تمام ہتھکنڈوں کے ساتھ وہ شہر میں اپنی ذاتی پل بتاتے ہوئے اکیلے پڑ جانے کے خطرے کی طرف بڑھے جا رہی ہے۔اس پورے دور میں پتہ نہیں چلتا کب اپنے سے بڑوں کو ہم الگ تھلگ کر ڈالتے ہیں۔ادھر ماں باپ یہ سوچ کر ہی حیران ہوتے ہیں کہ آج ان جوان بچوں کی اپنی ترجیحات کی فہرست میں بہت سی ضروری چیزیں غائب ہوتی جا رہی ہیں، مثلا مذہب، اخلاقیات، سچائی، محبت، پیار، خدمت، عزت ایسی تمام پرتیں جلد سے چرم روگ کے اثرات کی طرح ساتھ چھوڑتی جا رہی ہیں۔ اصل میں یہ انفیکشن کا دور ہے جس کے اثرات سے ہر رشتہ متاثر ہو چکا ہے۔

آج کی نسل جو نباتات سے بنے گھی پر زندہ ہے۔ جہاں ملاوٹ اور بازاری مصنوعات کی افراط ہے، نظریات کے نام پرآلودگی میں لپٹا علم گنگا سے لبرےزہے۔ بڑی ہی تکلیف دہ وقت ہے، ہم یہاں نوجوانوں کو سرے سے خارج نہیں کررہے ہیں، بلکہ نوجوان جماعت کے دماغ میں جمنے والے فرسودہ خیالات کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے ہی کام کی تلاش میں پھنسا نوجوان اپنے لئے ہی وقت نہیں جٹا پاتا، پھر بھلا وہ اپنے ایک خاندان کے لئے فرصت کے لمحات نکالے بہت ہے ۔یہ سماج اس کا شکر گزار رہے گا۔اگر ہم بہت پیچھے چھوٹ گئے اپنے گاؤں کو یاد کر پائیں گے ۔یہاں گاؤں ایک علامت بھی ہو سکتا ہے جو اس کے ماضی سے متعلق ہو، جہاں اس کی زندگی کے پروان چڑھتے ،تتلاتے بڑھنے کے دن گزر رہے تھے۔ اپنے ماضی کو اس حد تک آج کی نسل بھلا سکتی ہے کہ جس میں ماں باپ تک بھی شامل ہو جائیں صرف سوچنے سے ہی بھیانک لگتا ہے۔ 

اب صرف حیلہ تلاشے اوربہانے گڑھے جائیں گے کہ کام، کاروبار، گھر، خاندان دوستی، سفر جیسی سب باتیں۔ ارے دوستو !ان بزرگوں کو ہم ناتجربہ کار کیا بتلانے چلیں، انہوں نے دنیا دیکھی ہے۔وہ آپ کی آنکھ دیکھے بغیر ہی ماجرا بھانپ لینے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اپنی نظر میں انہیں بیچارے مان لینے والے ہم نوجوان ساتھی صحیح معنوں میں آج بہت غریب ہو چلے ہیں۔ بھلے وہ بوڑھے ہمارے اورآپ کے اس نئے فریب کے قریب قریب شکل والی اصطلاحات سے انجانے ہوں، مگر زبان کی فریب پن اور چالاکیاں وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ سچ مانیں وہ ہماری اور آپ کی ا ن غلط بیانیوںپر بھی چپ رہ کرسب کچھ برداشت کریں گے۔ان کے سہنے کی طاقت کا اندازہ ہم نوجوان نسل کو بھلا کہاں۔ میں بھی اسی ذات کا حصہ ہوں، جہاں گنی چنی کچھ نئی باتوں میں پھنسا اپنے والدین کو الجھا آتا ہوں کئی مرتبہ بہانے کم پڑ جاتے ہیں، جب ماں بار بار گاؤں نہیں آ پانے کی وجہ پوچھتی ہیں۔ہم بہت برے پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ نہ آگے بڑھنے کے نہ پیچھے جانے کے۔یہ بیماری خاص طور پر متوسط طبقہ کے نوجوانوں کے ساتھ مزید فٹ بیٹھتی ہے باقی امیر زادوں کی مجھے نہیں معلوم۔