بدھ، 3 جنوری، 2018

تقسیم نے درد نہیں بانٹا (پہلا حصہ)


تقسیم نے درد نہیں بانٹا (پہلا حصہ)
 محمد علم اللہ 
لاریب! محمد علی جناح ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ آخر تاریخ میں کتنی ایسی شخصیات ہیں، جن کے سر پہ مملکت کے قیام کا سہرا ہے؟ وہ ایک قدآور سیاست دان تھے؛ اپنے وقت کے معروف وکیل۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے قیام پاکستان کا مقدمہ ایک ذہین اور محنتی وکیل کی طرح لڑا، اور جیت بھی گئے۔ متحدہ ہندوستان میں وہ ان نمایاں رہنماوں میں سے تھے، جو ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ لیکن بٹوارے کے بعد جو کچھ ہوا، اس کا بیان انتہائی تلخ، تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔

آج محمد علی جناح کی 142 ویں سال گرہ ہے، اور اس موقع پر کچھ کہنا، وہ بھی ایک ہندوستانی کی حیثیت سے، خود کو دہکتے ہوئے کوئلوں سے گزارنے جیسا ہے۔ ایک معمولی سی لغزش بھی بڑی غلط فہمی کو جنم دے سکتی ہے؛ اس لیے کہ جناح کی شخصیت سرحدی تنازعات کے حصار میں گھری ہے اور اس حصار کو توڑ کر ان کی صاف شفاف قلمی تصویر بنانا ایک مشکل کام ہے۔

آپ ہندوستانی مورخین کے قلم سے نکلی تاریخ پڑھیں، پاکستانی مورخین کے قلم سے لکھی، امریکی، برطانوی یا پھر یورپین تاریخ نویسوں کی، آپ کو سب کی لکھی تاریخ الگ الگ یا مختلف دکھائی دے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تاریخ نویس کا نظریہ تاریخ کی کتابوں سے نہیں جھانکنا چاہیے، صرف تاریخ کا عکس دکھائے، لیکن جو ہے اس کا کیا کیجیے۔

ان مؤرخین کے مختلف اور جدا جدا نظریات یا ”مقاصد“ ہیں، جو اس تضاد کا باعث ہیں۔ سرحد کے اُس پار (پاکستان میں) محمد علی جناح کو ”قائد اعظم“ اور ”بابائے قوم“ جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے، اور سرحد کے اِس پار (بھارت میں) یہ نام نہ صرف یہ کہ اکثریت کے لیے پسندیدہ نہیں ہے، بلکہ جناح کا نام لینا بھی، گویا سیاسی ناعاقبت اندیشی کہلاتی ہے۔ ہندوستان میں اکھنڈ بھارت کے خواب کی راہ میں پاک و ہند کے بیچ لکیر کھینچ دینے کی ذمہ داری تن تنہا اسی نام ”جناح“ پر ڈالی جاتی ہے۔

بھارت میں تو ”جناح“ نام کا مطلب ہی ”بٹوارا“ ہے۔ چوں کہ جناح مسلمان گھرانے سے تھے، تو بٹوارے کا دوسرا مفہوم ”مسلمان“ بن گیا، اور آج کھلے بندھوں مسلمانوں کو دھرتی کی تقسیم کا ذمہ دارقرار دیا جاتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس کی جو قیمت چکانا پڑی، وہ الگ؛ اور پون صدی گزرنے کے بعد بھی آج جو قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے، وہ سوا ہے۔ حالاں کہ آج یہ کہنا ایسا مشکل نہیں رہا، کہ تقسیم ہند کا اصل ذمہ دار کون تھا۔

اب مطلع بہت حد تک صاف ہو چکا ہے، سورج واضح ہے، لیکن نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنے والے پنڈتوں سے نگہ ہٹے تو روشنی دکھائی دے۔ 1970ء اور 1983ء میں سرکاری خفیہ دستاویزات (secret and official documents) کی اشاعت (Transfer of Power 1942-47) جو اس وقت تک لندن کے انڈیا آفس کی تحویل میں تھے، انھیں دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ گاندھی جی، پنڈت نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل بھی ہندوستان کی تقسیم کے اتنا ہی ذمہ دار ہیں، جتنا کہ محمد علی جناح۔

مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ میں اس کی جامع تفصیلات دی ہیں۔ مولانا کے بقول:
”یہ بات رِکارڈ پر آجانا ضروری ہے، کہ جو شخص ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے کا سب سے پہلا شکار ہوا، وہ سردار پٹیل تھے۔ شاید اس وقت تک جناح کے لیے اپنی بات منوانے اور سودے بازی کرنے کا ایک بہانہ تھا، مگر پاکستان کی مانگ میں، وہ حدود سے تجاوز کرگئے تھے۔ ان کی اس حرکت سے سردار پٹیل اس قدر عاجز آگئے تھے، کہ وہ تقسیم پر یقین کرنے لگے تھے۔ ویسے بھی ماؤنٹ بیٹن کے آنے سے پہلے بھی وہ 50 فی صد تقسیم کے حق میں تھے۔ ان کا یقین تھا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ کام نہیں کرسکیں گے۔ وہ یہ بات کھل کر کہ چکے تھے، کہ اگر مسلم لیگ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، تو اس کے لیے انھیں تقسیم بھی قبول ہوگی۔ شاید یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا، کہ ولبھ بھائی پٹیل ہی تقسیم کے اصل معمار تھے“۔

ایک وقت وہ بھی تھا، جب جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بتایا جاتا تھا اور انھیں یہ خطاب کسی اور نے نہیں بلبل ہند سروجنی نائیڈو نے دیا تھا۔ 1910ء میں جناح نے ”مارلے منٹو رِفارمز“ کے تحت مسلمانوں کے لیے علاحدہ الیکٹوریٹ کی مذمت کی تھی، باوجود اس کے کہ اس سے انھیں ذاتی طور پر فائدہ ہوا تھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو مشورہ دیا تھا، کہ خلافت تحریک کا ساتھ دے کر، وہ مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ نہ دیں اور گاندھی جی پر الزام لگایا تھا، کہ ایسا کرنے سے انھوں نے صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں اور حتیٰ کہ باپ بیٹے میں بھی بلکہ ہر ادارے میں اختلافات اور تقسیم پیدا کردی ہے۔ اس کا جواب گاندھی جی نے یہ دیا:
(مولانا) محمد علی اور خود ان کے لیے خلافت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ محمد علی کے لیے یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور میرے لیے یہ اس لیے مذہبی فریضہ ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے میں گائے کو مسلمانوں کے چھوروں سے محفوظ کرسکتا ہوں۔

معروف صحافی مارک ٹیلی نے اپنی کتاب From Raj to Rajiv, BBC Books. London 1988، مینو مسانی، جو 1945ء میں قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے، کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے بتایا:
”نہرو سمیت اکثر لوگ بے صبرے ہوگئے تھے اور وہ چاہتے تھے، کہ مسلمان یہاں سے جلد از جلد رخصت ہوں تاکہ وہ اپنے گھر کے خود مالک ہوں۔ نہرو اور جناح کی ذاتی انا متحدہ جمہوری ہندوستان کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی تھی“۔

جب نہ جناح تھے نہ گاندھی، نہ نہرو، نہ پٹیل، نہ آزاد، نہ امبیڈکراور ناہی بہت سارے وہ مجاہدین، جنھوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے لازوال قربانیاں پیش کرکے قوم کو آزادی کی سوغات دی، کیا کسی کو اس ہندوستان کی کہانی بھی معلوم ہے؟ دساور سے جو مسلمان یہاں آئے، وہ یہاں بس گئے، یہیں کے ہوکے رہ گئے۔ ہندوستانی مسلمان کے اجداد کی ہڈیاں یہیں ہیں؛ انھوں نے خون پسینا اسی دھرتی پہ بہایا، اس دھرتی کے لیے بہایا، وہ یہاں سے کچھ لے کر کسی دور دیس نہیں جا بسے۔ ان کی محبتیں، ان کی محنت، ہنر، قربانیاں، سب کچھ اس دیس میں ہے، اس دیس کے لیے ہے۔ ایسا تو نہیں تھا کہ وہ فرنگی کی طرح اس ملک کو لوٹنے آئے تھے۔ دھرتی کے سینے پہ ہل چلوا کے، یہاں کے معدنیات، ذخائر و وسائل کی آمدن، یہاں سے دور اپنے وطن برطانیہ کے عوام کی بہبود کے لیے بھیجتے رہے۔ جب حالات سازگار نہ رہے تو وہ اپنے وطن لوٹ‌ گئے۔

اپنے دیس انگلستان کے مفادات کے لیے ہندوستان کے باشندوں میں ”پھوٹ ڈالو اور راج کرو“ کی پالیسی، فرنگی ہی کی تو پالیسی ہے۔ تاریخ کے صفحات دیکھیے، کیا اس سے پہلے ہندوستانی عوام میں نفرت کا یہی عالم تھا؟! بھولی بھالی اور سیدھی سادھی عوام کے دلوں میں اختلاف، نفرت، عداوت اور فرقہ پرستی کا بیج بونے والوں، نفرت کے اِن سوداگروں کو ہم دیس نکالا دینے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن وہ یہاں جو زہریلا بیج بو کر چلے گئے، اس درخت کا پھل کھانے کے لیے ہم یہاں ہیں۔ یہ شجر پاک و ہند بٹوارے کی شکل میں ہمارے سامنے ایستادہ ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ”سوراج“ (اپنا راج) کی لڑائی لڑتے وقت کسی بھی ہندوستانی کے دل میں کبھی اور کسی طرح سے بھی یہ خیال نہیں آیا تھا، کہ جس وطن کی آزادی کی خاطر وہ اپنا لہو دے رہے ہیں، وہ ایک دن دو لخت ہوجائے گا۔ انھیں ابھی کئی لڑائیاں لڑنا ہوں گی؛ وہ بھی آپس میں۔

آزادی کے بعد تو یہ سماں ہونا چاہیے تھا، کہ دیس کے گھر گھر میں چراغاں ہوتا، شادیانے بجائے جاتے، مگر ہوا اس کے برعکس۔ 1947ء میں، تقسیم کے فورا بعد، یہاں بسنے والی اقوام کو خون چکاں حالات اور واقعات کا سامنا کرنا پڑا، جس نے بعد کے دنوں میں پوری انھیں بکھیر کر رکھ دیا۔ ہندستان پاکستان دونوں طرف کے ادیبوں نے بٹوارے کے دوران ہونے والے انسانیت سوز واقعات پر لرزہ خیز کہانیاں لکھیں۔ آج کے بھارت کی یہ صورت احوال ہے، کہ یہاں کے مسلمان دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ ہوا یہ کہ آزادی کی مسرتوں پر تقسیم کا دکھ درد غالب آگیا اور پورے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اگر کچھ تھا، تو خون ہی خون، اس کے سوا کچھ تھا، تو وہ تھی اُس خون کی بو۔