بدھ، 3 جنوری، 2018

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
محمد علم اللہ 

کل رات تقریبا گیارہ بجے اپنے مخلص اور مہربان دوست محمد احمد کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری سے اپنے گھر ابوالفضل لوٹ رہا تھا۔ جماعت اسلامی ہند کے قائم کردہ الشفا ہاسپیٹل سے زرا پیچھے، یعنی مسلم مجلس مشاورت اور جمعیت اہل حدیث والی گلی سے تھوڑا پہلے، جہاں زمین کا ٹکڑا خالی پڑا ہے، وہاں کچھ پیر مرد بیڑی سگریٹ کے مرغولے اڑاتے، تاش کھیلنے میں مصروف تھے۔ یہ دراصل جمعیت اہل حدیث کے کیمپس کا مرکزی دروازہ ہے، جو خاص مواقع جیسے جمعہ اور عیدین یا ایسے ہی کسی جلسے وغیرہ پر کھلتا ہے۔ یہ پوری آبادی مسلمانوں کی ہے تو خیال کیا جاسکتا ہے، یہ بے فکرے بزرگان، مسلمان ہی ہوں گے۔ ان کی جھکی ہوئی کمریں اور دھنسی ہوئی آنکھوں کے حلقے بتا رہے تھے کہ ان کی عمریں پچاس ساٹھ سے کم نہیں ہوں گی۔

مرزا غالب نے شطرنج کو ذہنی ورزش کا ذریعہ بتایا ہے، لیکن جس قوم کے بوڑھے ایسے کھیلوں میں مستقل اپنا وقت ضائع کریں، تو سمجھ لیجیے اس قوم کا مقدر تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اس سے قبل کئی مرتبہ میں جامعہ نگر کے مختلف علاقوں میں، یہ اور ان جیسے کئی نوجوانوں کے علاوہ عمر درازوں کو تاش اور جوا کھیلتے دیکھتا رہا ہوں۔ ایسے مقامات پر اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے ٹھیر جائیں، تو آپ کو ان کی زبان سے رنگ برنگی گالیاں اور مسجع و مقفع مغلظات بھی سننے کو مل جائیں گی، جنھیں سن کر شیطان بھی شرمسار ہو جائے گا۔ سوچتا ہوں، آج اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوتے، تو ان کے اس بے کار شغل کی وجہ سے ان پر ضرور کوڑے برساتے، اور انھیں چھٹی کا دودھ یاد دلوا دیتے، لیکن ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں سب کو اپنی من مرضی کی آزادی ہے۔

میرا ارادہ تھا کہ انھیں نصحیت کرتا، کہ احمد کہنے لگا، ”کیوں اپنے آپ کو پٹوانا چاہتے ہو، یہ اس علاقے کے غنڈے ہیں، جن کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے، تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، ان سب میں جان نہ گھلاو“۔ میں باز آیا کہ احمد ٹھیک ہی کہتا ہے، لیکن دل ہی دل میں کڑھتا رہا، کہ یہ کوئی صحت مند معاشرے یا ترقی یافتہ سماج کا طرز نہیں ہے۔

ابھی کل ہی کی بات ہے ایک ناواقف بزرگ نے مجھے اتر پردیش کے ضلع بجنور کے نگینہ قصبے سے فون کیا۔ وہ تعلیم کے حوالے سہ روزہ دعوت میں شایع ہونے والے میرے مضمون پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی داستان سنا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا وہ تعلیم بالغان کے لیے کام کرتے ہیں؛ اپنا نام محمد داود ملتانی بتایا۔ تعلیم سے ہوتے ہوتے، ذکر مسلمانوں کی زبوں حالی تک جا پہنچا۔ بات کرتے ان کی آواز رُندھ گئی، وہ زار زار ہوگئے۔ فکرمندی سے کہا، کہ سمجھ نہیں آتا، ہمارے نوجوانوں، خواتین اور بوڑھوں کو سکون کی نیند کیسے آجاتی ہے۔ ہم مسلمان اس قدر ذلیل خوار ہورہے ہیں، پھر بھی بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ہمیں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، اتنا زیادہ کہ ہماری نیندیں حرام ہو جانی چاہیں۔

داود ملتانی کی حالت معمول پر آتے ہی، میں نے ان کے سلسلہ روزگار کے بارے میں سوال کیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ انھوں نے اپنی ذاتی کوشش سے ضلع بجنور کی دو بستیوں میں کام کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جو انتہائی پس ماندہ اور عسرت زدہ بستیاں کہلاتی تھیں۔ ان کی سعی سے کنجری سرائیاب، پھول بستی اور بھٹیاری سرائے گلشن نگر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ انھی کی کاوش سے اب اس بستی کے ستر فی صد بچے اسکول جاتے ہیں۔ جب کہ بستی کے بڑے، بوڑھے اور خواتین ذوق و شوق و پابندی سے تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔

ایک طرف وہ بزرگ ہیں، دوسری جانب یہ، جن کے لاکھوں کروڑوں کے فلیٹ اور بلڈنگیں ہیں۔ ان کی آمدنی کی رقم سے ان کی جیبیں بھری ہوئی ہیں، انھیں نہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور نہ محنت و مشقت کی۔ ان میں سے بڑی تعداد میں ہریانہ اور یوپی کے وہ لوگ بھی ہیں، جنھوں نے گاوں میں اپنی زمین بڑی بڑی کمپنیوں کو بیچ کر یہاں مکان اور گاڑیاں خرید کر انھیں کرائے پر اٹھادیا ہے۔ یہ وجہ بھی ہے کہ یہ لوگ اب محنت مزدوری کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ان کے پاس وقت بے بہا ہے، جسے بے دریغ منفی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔

مجھے یہ سطور لکھنے کا خیال اس لیے بھی آیا کہ میرے ایک دوست محمد ایوب ندوی جن کا تعلق شہر لکھنو سے ہے، نے اپنی فیس بک وال پر اس صورت احوال سے ملتی جلتی ایک تصویر پوسٹ کی؛ تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے:
”بعد نماز عشا، بوقت دس بجے رات، اندور کی ایک شاہراہ پر بیٹھ کر شطرنج کھیلنے میں مصروف مسلمان“۔
اس کے نیچے مختلف شہروں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے دردمندان ملت کے تبصرے ہیں، جن میں اس عمل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ اور اس قسم کے مناظر دیکھ کر یقیناً ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ آخر ہم جا کہاں‌ رہے ہیں۔ کوئی منزل یا مقصد بھی ہے، یا سراب ہی سراب ہے!

مجھے یاد پڑتا ہے میں نے کئی سال پیشتر ایسے ہی رویوں کو دیکھتے ہوئے، معروف دانشور ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سے اس کا تذکرہ کیا تھا۔ انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے کہا تھا کہ یورپ میں اس طرح کا رویہ نہیں پایا جاتا بلکہ وہاں عمر دارز شخص بھی کچھ نیا کرنے یا سیکھنے کی تگ و دو کرتا ہے۔ جب کہ پڑھا لکھا اور اہل علم طبقہ، رِٹائرمنٹ کے بعد نئے موضوع پر ریسرچ یا پی ایچ ڈی کرتا ہے۔ اس طرح کا رجحان وہاں عام ہے۔ وہاں بوڑھے ہوجانے کے بعد بھی تھکنے کا کوئی تصور نہیں ہے، جب کہ ہمارے یہاں لوگ بہت جلد تھک جاتے ہیں۔ اس وجہ سے مختلف بیماریوں اور مصیبتوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور نوجوان طبقہ ان کے تجربات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔

اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کا کام قابل تعریف ہے کہ اس نے ایسے افراد کو کم از کم مسجدوں تک لانے کا کام کیا ہے، مگر دیگر تنظیموں اور اداروں کو بھی اس جانب دھیان دے کر کچھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ایسے افراد کی تعلیم بالغاں اور ان سے سماجی خدمات لیے جانے کی طرف توجہ دلائی جاسکتی ہے۔ جامعہ نگر ایک ایسی بستی ہے جہاں تقریبا تمام ہی اہم ملی تنظیموں کے مرکزی یا ذیلی دفاتر ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں جامعہ نگر ہندوستانی مسلمانوں کا قلب ہے۔ یہاں سے جو آواز اٹھتی ہے دُور تلک سنی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے یہاں سے جو آواز اٹھے گی وہ توانا بھی ہوگی اور مضبوط بھی اور اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔