منگل، 12 ستمبر، 2017

کرائم شوز: چند سوالات اور ان کے جوابات


فرحان احمد خان معروف صحافی اور مترجم ہیں جو متعدد موضوعات پر  لکھتے ہیں ، گذشتہ دنوں انھوں نے اپنے فیس بُک پر کرائم شوز سے متعلق چند سوالات کئے تھے ، ان کے سوالوں کا میں نے بھی اپنی فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی تھی ۔سوالوں کے ساتھ جوابات فیس بُک احباب کی نذر ہے ۔ فرحان بھائی کے شکریے کے ساتھ ۔
محمد علم اللہ
دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

1- کیا یہ پروگرام معاشرے کے سدھار کے لیے ضروری ہیں؟اگر ہاں تو کیسے؟
جواب : 
میرے خیال میں اس سے سماج کے سدھار کے بارے سوچنا ویسے ہی ہے جیسے ریت میں سراب کے پیچھے دوڑنا ۔ایک منفی رویہ کو فروغ دیکر اس سے مثبت نتیجہ کی توقع  کیسے کی جا سکتی ، ببول بوکر آپ گلاب نہیں اگا سکتے  ۔ چونکہ اس میں باضابطہ طور پر  جرم کو فلما کر دکھایا جاتا ہے یا اس کی تفصیلات بتائی جاتی ہیں کہ فلاں ظلم کس طرح وقع پذیر ہوا یا اس کے پیچھے کیا کیا عوامل  تھے  کس طرح کا اسلحہ ، زہر اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے والی اشیاء کا کیسے  استعمال کیا گیا اور آج کل چھوٹے سے لیکر بڑے تک یہاں تک کہ بچے بھی  ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ کے ذریعہ ایسے پرگراموں تک بآسانی رسائی  رکھتے ہیں ۔متاثر نہ ہونا ناممکن ہے ۔ انسان کسی نا کسی حد تک  اس کا اثر بھی قبول کر تا ہی ہے ۔

2- کیا جرائم پیشہ افراد کی آپ بیتیاں نشر کر کے جرائم ختم ہو جائیں گے؟
جواب : 
آپ بیتی ، سوانح ، افسانہ ، کہانی یہ سب کچھ در اصل معاشرہ کا آئینہ ہوتے ہیں ،آپ معاشرے کو جس طرح کا آئینہ دکھائیں گے اثر اس کا ویسے ہی ہوگا ، اس معاملہ میں گرچہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک برائی کو برائی نہیں کہا جائے گا بندہ کیسے جانے گا کہ یہ غلط ہے ،  یا صحیح ، اپنی جگہ پر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے جرائم پیشہ لوگوں کی آپ بیتیاں شائع نہیں کرنی چاہئے ، اگر  شائع کرنا بہت ضروری بھی ہو تو اسکرپٹ اس انداز سے لکھا جانا چاہئے کہ بجائے اس سے ہمدردی پیدا ہو، اس کو واقعی جرم تصور کئے جانے کا مادہ پیدا ہو ۔ لوگ  خاص کر بچے اس کو آئیڈیل کے طور پر قبول نہ کریں بلکہ جانیں کہ یہ ایک خراب آدمی تھا جس کو لوگ آج اس کے خراب کام سے یاد کر رہے ہیں نا کہ اچھے کام سے ۔ 

3-کیا جرائم کی تمثیلی منظر کشی اور پیش کش جرائم کی تعلیم تو نہیں بن رہی؟
جواب : 
بہت حد تک ، اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے  اور اکثر  نوجوانوں کی زبان سے اس طرح کی باتیں سنیں گے کہ اس نے اس چیز کو یوں انجام دیا اور اس کو  کو فلاں فلم میں یوں دکھایا گیا ہے  وغیرہ وغیرہ ۔  جب انسان کے اندر جنون سوار ہوتا ہے تو پھر اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی منظر کشی یا لٹریچر جنونی کیفیت پیدا کرنے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں ۔ ابھی کچھ دنوں قبل کہیں میں نے یہ پڑھا تھا کہ نوجوان بڑی تعداد میں ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں اور سیکس اور جنسی موضوعات کے علاوہ وہ جن چیزوں کو گوگل میں تلاش کر رہے ہیں ان میں بلا تکلیف آسان طریقہ خود کشی  کیا ہے ؟ اس  بارے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسے معاشرے میں جرائم کی تمثیلی منظر کشی جذبات کو مزید بر انگیختہ کرنے کا کام کرے گا چہ جائکہ ہم اس سے اصلاح اور سدھار کی امید رکھیں ۔ 

4- پولیس سرکاری ادارہ ہے، بتایا جاسکتا ہے کہ کس ضابطے کے تحت کسی نجی چینل کو پولیس کی نفری بطور ایکٹر فراہم کی جاتی ہے؟
جواب : 
میرے خیال میں پولس کی باضابطہ نفری تو کسی چینل کو فراہم نہیں  کی جاتی ہوگی ، جو چینل  یا  پروڈکشن ہاوس اس طرح کے پروگرام کراتے ہیں ان کے پاس مختلف قسم کے ڈریس اور میک اپ کا ساز و  سامان ہوتا ہے جس سے وہ اپنا مطلوبہ کیریٹر ڈیولپ کرلیتے ہیں ۔ آپ جیسا  بتا رہے ہیں اگر کسی چینل یا ادارے کو واقعی اداکاری کے لئے باضابطہ اور حقیقی کارکن فراہم کئے جا رہے ہیں تو یہ تباہی کا عندیہ ہے ، اس کی روک تھام کے لئے سماجی کارکنان اور سنجیدہ طبقہ کو آگے آنا چاہئے ۔ 

5- ریٹنگ اور منافع کے لیے پروگرام چلانے والے چینلز کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے تن خواہ پانے والے پولیس اہلکار کیسے میسر آجاتے ہیں ؟ انہیں پیشہ وارانہ مصروفیات میں سے فلم شوٹنگ کا وقت کیسے مل جاتا ہے؟
جواب : 
یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے ، صحافی حضرات اور سماجی کارکنان کو اس  پر نظر رکھنی چاہئے اور اس کے خلاف نہ صرف احتجاج کرنا چاہئے بلکہ ان پر  تادیبی کاروائی کے لئے  منسلکہ اداروں کے ذمہ داران  کے علاوہ  عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے ۔ 

6- کرائم پروگراموں کے اینکرز کو جیلوں میں ملزمان یا مجرموں سے براہ راست بات چیت کی اجازت کس ضابطے کے تحت اور کیوں دی جاتی ہے؟ وہ کس اختیار کت تحت سوال پوچھ کر نشر کرتے ہیں ؟
جواب : 
اس کی اجازت  کسی بھی ملک کا قانون نہیں دیتا ، یہ ساری چیزیں افسران اور ایسے افراد کے ملی بھگت سے انجام دی جاتی ہیں ۔  دسمبر 2012 میں دہلی میں ایک چلتی بس میں لڑکی کو ریپ کرنے والے مجرموں سے بات چیت پر مبنی دستاویزی فلم لیزلی اڈون نے جب بنائی تھی اور اس میں مجرموں سے بات چیت کی تھی تو اس وقت ہندوستان سمیت عالمی سطح پر اس  موضوع پر کافی بحث ہوئی تھی ، اس فلم پر  حالانکہ ہندوستانی حکومت نے پابندی عاید کر دی تھی یہ الگ بات ہے کہ وہ فلم بعد میں لندن سے نشر ہوئی ۔ اس سلسلہ میں ماہرین کی رائے گوگل سرچ سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔

7- میڈیا کو گالیاں دینے والے ناظرین نے کبھی ان چٹ پٹے پروگراموں کی پیش کش پر غور کیا ہے؟ کوئی سنجیدہ سوال اٹھایا ہے؟
جواب : 
میرے خیال میں اس طرح کی چیزوں پر دونوں طرح کےافراد پائے جاتے ہیں ، کچھ اس کو پسند کرتے ہیں کچھ نا پسند ، ایک سنجیدہ معاشرے میں اس کے اثرات پر  دونوں جانب سے غور کیا جانا چاہئے اور منطقی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش ہونی چاہئے ۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہندوستان میں یا پاکستان میں اس طرح کے پروگراموں پر کسی نے باضابطہ آواز اٹھائی ہے ۔ ہماری یہاں بد نصیبی تو یہی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ، نہ تو اس طرح کے موضوعات پر ریسرچ ہو تی ہے اور نہ ہی اس کے مثبت اور منفی پہلووں پر کوئی غور و خوض کرتا ہے ۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا پورا بر صغیر کا معاشرہ دن بدن قعر مذلت میں گر رہا ہے ۔ یہ صرف جرائم سے متعلق اثرات کی بات نہیں ہے ، ماحولیات ، بیماری ، حفظان صحت وغیری جیسے موضوعات کو بھی لیکر  ہمارے یہاں آپ کو غیر سنجیدگی ہی نظر آئے گی ، گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ، اور جب تک آپ کسی چیز کو مسئلہ نہیں سمجھیں گے اس کے حل کی تد بیر کیسے تلاش کریں گے ۔ 

8- کیا ان پروگراموں میں آپ نے کبھی کسی ہائی پروفائل مجرم یا ملزم کو چیخنے والے اینکر کے سامنے نظریں جھکائے ہتھکڑی لگے کھڑے دیکھا ہے؟
جواب : 
میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ۔

9- کیا آپ کے ذہن میں یہ سوال نہیں اٹھتا ہے کہ پولیس ، مجرم ، اور عدلیہ کے بیچ کسی بھی تیسرے گروہ کاکمرشل مقاصد کے لیے حائل ہونا پہلے ہی سے خستہ حال نظام عدل کو مزید متاثر کر رہا ہے ؟
جواب : 
بالکل متاثر کر رہا ہے ، ہمارے یہاں عدالتی نظام جس سست روی کا شکار ہے ، اس کی وجہ سے یہ عناصر تو فائدہ اٹھا ہی رہے ہیں ۔ جرمن سماجی علوم کے ماہر جرگن  ہیبر ماس  نے 18 ویں صدی سے لے کر اب تک کے ميڈيائی ترقی  کا مطالعہ کیا  اس کی تحقیق کے مطابق لندن، پیرس اور تمام یورپی ممالک میں اس کا رواج  پبلک اسفیر  کے آس پاس  ہوا ،   عوامی  مباحثے کو کافی  ہاوس  اور سیلون سے حاصل کیا گیا تھا لیکن یہ طویل عرصہ تک نہیں تھا۔  انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاست پارلیمان میں اور میڈیا میں ہوتی  ہے، جبکہ عوام کے مفادات اقتصادی مفادات پر غلبہ رکھتے ہیں۔  یہ  تسلیم  کیا  گیا کہ عوام  کے خیالات  کا تبادلہ کھلے عام نہیں  بلکہ بڑے لوگوں کے اثرات اور توڑنےمروڑنے کے سٹائل پر منحصر ہے۔ ظاہر ہے کہ اکثر  اقدام  جس عوام کے نام پر کی جاتی ہے، وہ اصل میں خود سکھ سے متاثر دماغی تانے بانے کا شکار ہوتی ہے۔
جرم کے نام سے تیزی سےکٹتی فصل   بھی اس نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ قریب 225 سال کی عمر پرنٹ میڈیا اور 60 سال سے ٹکے رہنے کی جدوجہد کر رہے الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کا پیمانہ جرم کی بدولت اکثر چھلكتا ظاہر ہوتا ہے۔ خاص طور پر 24 گھنٹوں کے ٹیلی ویژن کی تجارت میں، جرم کی دنیا خوشی کا سب سے بڑا سبب بن گیا ہے کیونکہ جرم کی دریا کبھی  بھی خشک نہیں ہوتی  ہے۔ نادان صحافی مانتے ہیں کہ جرم کی ایک انتہائی معمولی خبر میں بھی اگر مہم جوئی، راز، مستی اور تجسس  پروس  دیا جائے تو وہ چینل کے لئے  دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن عوام کا خیال ہے کہ، کوئی ثابت کرنے کے لئے کافی مضبوط نہیں ہے۔
گونگا باکس کہلانے والا ٹی وی اپنی  پیدائش کے کچھ ہی سال بعد اتنی تیزی سے کروٹیں بدلنے لگے گا، اس کا تصور آج سے چند سال پہلے شاید کسی نے بھی نہیں کیا ہوگا ، لیکن ہوا یہی ہے اور یہ تبدیلی اپنے آپ میں ایک بڑی خبر بھی ہے۔ میڈیا انقلاب کے اس دور میں، قتل، عصمت دری اور تشدد کے واقعات  سبھی میں کوئی  نہ کوئی خبر ہے۔ یہی خبر  24 گھنٹے کے چینل کی خوراک ہے۔ یہ نئی صدی کی نئی چھلانگ ہے۔

10-کیا یہ سنسنی خیر پروگرام سماج میں شک ، عدم تحفظ اور خوف سمیت دیگر تباہ کن نفسیاتی عوارض کا باعث نہیں بن رہے ؟
جواب : 
بالکل بن رہے ہیں ، اسی لئے میں نے کہا یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو اس جانب توجہ دینا چاہئے اور اس کی پوری تحقیق کر کے اس سے سماج میں پڑنے والے اثرات سے عوام کو رو برو کرانا چاہئے ۔ اس وقت ہمارے سامنے میڈیا کا  جو چہرہ ہے وہ مستقل تغیر پذیر  ہے۔ اس میں اتنی لچک ہے کہ پلک جھپکتے ہی  یہ ایک نئے اوتار کی شکل میں تبدیل  کیا جا سکتا ہے۔ نئے زمانے میں نئے  انداز  اور جرم کے نئے  طریقوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایسے میں اس کے  روک تھام کی بھی  ضرورت  بڑھ رہی ہے۔