اتوار، 25 اکتوبر، 2015

رخصت ائے دلی تری محفل سے اب جاتا ہوں میں‎...

محمد علم اللہ
انسانی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا مرحلہ ضرور آجاتا ہے،جب دوراہے پہ کھڑا انسان خود اپنے ہی تعلق سے کوئی فیصلہ کرتے ہوئے کشمکش میں گرفتا ر ہوجاتا ہے کہ کس راستہ کاانتخاب کرے اور کس کو چھوڑ دے ؟کتابوں، کہانیوں اور فلموں میں متعدد مرتبہ لوگوں کونقل مکانی یا ہجرت کے کرب سے گزرتے اور دوستوں و رشتہ داروں سے دوری کی کسک جھیلتے، اس غم میں گھلتے، ٹوٹتے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔ خود مجھے ذاتی طور پر اِس کرب کاپہلی باراحساس تب ہوا جب ہاسٹل میں ڈالاگیا۔ترک وطن یا مہاجرت کا یہ سفر جو محض نو سال کی عمرمیں شروع ہوا وہ سمت سفرکی عوامل اور منزل کی تلاش کے مراحل سے وقتا فوقتا گذرتا رہا اور مہاجرت کا یہ تسلسل اور بنجارہ پن مجھے آبائی وطن سےدور کرہی گیااوریوں نگر نگرکی خاک چھاننے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو شہر رانچی کے ایک چھوٹے سے گاوں اٹکی سے بھٹکل اور اعظم گڑھ ہوتا ہوا مہانگرکی سمت مڑگیا۔جس میں نظاموں کے شہرحیدرآباد،اس کے بعد ’’بے وطن‘‘ لوگوں کے مسکن دہلی کو اپنا مستقر بنانے کے بعدایک بارپھر حیدرآبادکی جانب عازم سفر ہونا در حقیقت اُسی ’’خانہ بدوشی‘‘کے سلسلوں کی ایک کڑی ہے،جسے عرف عام میں ہجرت یا شہر بدری سے بھی موسوم کیاجاسکتاہے،اب اس کا آخری پڑاؤ کب اور کہاں ہوگا تقدیر کا مالک ہی بہتر جانتا ہے ۔
یہ بھی محض اتفاق ہے کہ بچپن سے ہی امیر خسرو ، بہادر شاہ ظفر ، میر امن دہلوی ، مومن خاں مومن اورمیر و غالب کے قصے،کہانیاں،ان کی نظمیں ، غزلیں اور ان سے متعلق کتابوں میں دہلی کی تہذیب ، علم و فن اور تاریخی واقعات کو پڑھنے کی دھن سوار رہی اور جب کبھی’دلی دربار‘کی باتیں نظروں کے سامنے آتیں تو جی چاہتا کہ ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘ محاورہ کو پھلانگ کراس شہر میں پہنچ کر دیکھیں کہ یہ ہزار رنگ داستانوں کا شہر کیسا ہے؟ مرکز ہند کہی جانے والی اس سر زمین کے باسی کیسے ہیں ؟ ، عالم میں انتخاب اس شہر میں کیسی جلوہ سامانیاں ہیں ؟ اور پھر جب اِس آنگن میں بسیرا ہی ہو گیا تو گویا عشق کو اپنے اظہار کی راہ مِل گئی۔ شب و روز علم و فن کی تلاش میں سرگرداں دہلی کے سحر میں گم ہوتا چلا گیا۔تاریخ اور علم و ادب کے اس شہر میں پڑھی ہوئی چیزوں کو تلاش کرتے کرتے، نئی دلی سے پرانی دلی ،کبھی قطب مینار، ہمایوں اور نظام الدین اولیاء کا مقبرہ اور پرانے قلعہ کے کسی منظر میں کھو جاتا تو کبھی کافی ہاؤس ،انڈیا گیٹ ، ماڈرن آرٹ گیلری اور ریگل کے قصوں کے کرداروہاں کے چلتے پھرتے لوگوں میں ڈھونڈتا۔
اب جب کہ دہلی کو چھوڑ چلااورحیدرآبادکو مستقربنا نے کا سوچا تو دہلی کے شب و روزکی یادوں کا ایک ہجوم پریشان کئے ہوئے ہے۔اور باوجود اسکے کہ دکن میں بڑی قدر سخن ہے دہلی میں بیتا ہواایک ایک پل یاد آ رہا ہے۔ حیدرآباد سے بھاگ کر جب پہلی مرتبہ دہلی میں قدم رکھا ، پرانی دلی ریلوے اسٹیشن سے اترکر اوکھلا کیلئے بلیو لائن بس پکڑی اورجب یہ بس جامعہ نگر کیلئے چلنی شروع ہوئی تو لال قلعہ، جامع مسجد ،کناٹ پلیس مارکیٹ کی اونچی اونچی عمارتوں کے سامنے سے ہوتی ہوئی گزرنے لگی اور مبہوت کردینے والی رنگا رنگی جو اخبارات و رسائل میں دیکھی یاپڑھی تھی ،اپنے سامنے جوں کا توں دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا ۔
دہلی عجیب شہر ہے۔جہاں آپ کسی نہ کسی روپ میں حیرت سے ملے بنا نہیں رہ سکتے۔ کبھی حکمرانوں کی حکمرانی کا اندازحیران کْن تو کبھی پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کی زبوں حالی دیکھ کر حیرانی۔لاچار ، مجبور ، بے بس اور بے سہارا لوگوں کی مجبوری دیکھ کر حیرانی۔ دہلی کی یہی خصوصیت ہے جو ہر طرح اور ہررنگ کے حامل لوگوں کو اپنے یہاں جگہ دے دیتی اور اس کے لئے اپنی بانہیں اس قدر پھیلا دیتی ہے کہ انسان ہر تلخ و شیریں سہہ کر بھی اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
دیہاتی زندگی کی بے ریا سادگی سے مزین اور مذہبی ماحول میں پرورش پانے والے ایک بھولے پنچھی کے لیے دہلی کی دھنک رنگ فضا بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ ایک خوف دامن گیر تھا کہ نوواردیہاں کی وسعتوں میں کہیں کھو تو نہیں جائے گا؟ یہ آزادی ہے یا انسانوں کے سمندر میں اپنے قطرۂ ہستی کا بے نشاں ہونا ؟ کبھی سوچتا کہ سماج اور معاشرے کو بدلنے کا جو خواب دیکھتا رہا اْس کی تعبیر آسان ہے ؟ یا حالات کے مْنہ زور تھپیڑوں میں اپنی ذات کا خس وخاشاک کی طرح بہہ جانا حقیقت کے زیادہ قریب؟ مجھے اعتراف ہے کہ دِلّی کی فضاؤں میں اپنے بقا کی اُڑانیں بھرتے ہوئے پر کتر لئے جانے کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہا لیکن دِلّی کی محبت اِس کی گلیوں اور بازاروں میں رچے بے نام سے تحیر آمیز خوف پر غالب ہی رہی۔
دہلی آنے کے بعد حقیقت اور فریب سے بے نیاز نوجوان کو ایسے ہی لگا تھا کہ اب وہ آزادہے اور اپنی منزل کی تلاش کا اپنا مالک اور مسافر لیکن منزل کبھی کسی کو ملتی ہی کہاں ہے ؟ انسان کی خواہشات لامحدود اور اس کو حاصل کر پانا اس سے زیادہ محدود اور مشکل۔انسان مسرت، خواہش اورچاہ کی تلاش میں سرگرداں پھرتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے اورخواہشیں اپنی جگہ برقرار ہی رہتی ہیں،یہ خواہشیں اور ضرورتیں قصر کائنات کی راہداریوں میں خوشنما محل کی طرح ہیں جن کے پاس سے لوگ جب بھی گذرتے ہیں ان کی تمنا کرتے ہیں، گذرنے والے حسرت ومسرت کے احساس لے کر گذر جاتے ہیں اور یہ خواہشوں کے ستون وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔ شاید زندگی اسی کا نام ہے ،چلتے رہنے کا۔ جہد مسلسل کا ،کہیں نہ رکنے اورقدم لگاتار آگے بڑھاتے رہنے کا ، مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔انسان خواہشات کی تکمیل کی خاطر بھاگتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ خود ختم ہو جاتا ہے مگرخواہشیں تشنۂ تکمیل ہی رہتی ہیں۔
اس میں بھی جب انسان کسی خاص مقصد کے حصول کی خاطر کسی سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو زندگی اس کے سامنے اپنے نت نئے رنگ روپ سے آتی ہے۔بے شمار موہوم خیالات اس کا پیچھا کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے اندر خوف بھی ہوتا ہے اور کامیابی کے حصول میں خدشات بھی اور یہ کیفیت اس وقت تک اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے جب تک وہ اپنے مقصود کو حاصل نہ کر لے یا کم از کم اس کے حصول کے قریب نہ پہونچ جائے ،نفس کو نہ تو سکون ملتا ہے اور نہ قرار اور یہ تلاطم بلاخیز سایہ کی طرح اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے ۔خوف اس کو ڈستا رہتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں کے ذہن میں کچھ اور خیال پنپ رہا ہوتا ہے اور والدین یاسرپرست اس کو کچھ اور بنانا چاہتے ہیں اور وہ بے چارہ بننے اور بنائے جانے کی کشاکش میں معلق رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود تباہ ہو جاتا ہے یا باغی بن جاتاہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا مگرمیرے لئے یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ میں بغاوت کر کے بھاگا تھا لیکن کیفیت کچھ اس کے سوا بھی نہ تھی، آس لگائے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دے کر بھاگنا اور وہ بھی ایسی چیز کو دیکھ کر جو آپ کے ہاتھ میں نہ آئی ہو اورامید و بیم کے درمیان آپ جھول رہے ہوں تو ڈرنا فطری بات ہے۔اس ڈر اور خوف نے نہ جانے میری کتنی نیندیں حرام کیں ۔
میں آج بھی اپریل دو ہزار چھ کی اس بوندا باندی والی شام کو نہیں بھول سکتا جب حیدر آباد دکن سے بھاگ کر پہلی مرتبہ میں میرو غالب اور داغ کے شہر میں داخل ہو رہا تھا۔استعجاب اور حیرت سے آنکھیں کھلی تھیں اور آفتاب دن بھر کی تھکن سے چور اپنی بساط لپیٹ رہا تھا ۔بارش میں نہائے ہوئے پیڑ پودے اور در و دیوار دلفریبی کے ساتھ مسکرا رہے تھے ۔ جسم وجاں کو ہلا دینے والی بلیو لائن بس کے ذریعہ اپنے بچپن کے دوست عارف کے ساتھ ہولی فیملی اسپتال سے ہی شروع ہوجانے والے محمد علی جوہر کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں لگائے گئے باغ کی سرحد میں داخل ہوااور اس کی عالی شان عمارتوں کو دیکھا تو دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے نہ جانے کتنی دعائیں کر ڈالی کہ یااللہ! لاج رکھ لیجیو!کہ اگر میرا یہاں داخلہ نہ ہوا تو میں کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہ رہوں گا۔اللہ نے میری دعا قبول کی اورمیں نے مولانامحمد علی جوہراورمولانامحمود حسن کے قائم کیے ہوئے اس ادارہ سے بے شمار ثمرات سمیٹے یہاں سے میں نے صرف ڈگریاں ہی نہیں لیں بلکہ ایسے ایسے جید، لائق اور مہربان استاذ اور جان نچھاور کرنے والے احباب پائے کہ ماضی کو پلٹ کردیکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
جامعہ ملیہ کا روح پر رور ماحول ،جامع مسجد ، مینا بازار، لال قلعہ، صفدر جنگ کا مقبرہ، جنتر منتر، پرانا قلعہ،قطب مینار ،پریس کلب ، آل انڈیا ریڈیو ، ابوالفضل کے ہوٹل ،بٹلہ ہاؤس اور عظیم ڈیری کے چائے خانے اور جامعہ کے کینٹین میں بحث ومباحثہ ، توتو میں میں اور تکراریں… کہانیوں ، فلموں اور کتابوں پرتبصرے آرٹ ، فن اور ان تمام کے تیکنک و باریکیوں پر گفتگو اور گھنٹوں بات چیت ۔سیمنار ، میٹنگ پریس کانفرنس اور اس میں پری پلان مقرر کا گھیراو، بے باک صحافت کی تمنا میں اپنوں اور غیروں کی ناراضگیاں ، سینیرز اور عزیزوں کی جھڑکیاں ان کی محبت اور نصیحت۔ایک ایسی دنیا اور ایسا ماحول جس کے سحر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ایک دن ان سب کو چھوڑ کر منزل کی تلاش میں کہیں اور کے لئے بھی کمر کسنا ہوگا۔آج ان تمام یادگار بھرے لمحات کو چھوڑتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اورقلم پر لرزہ طاری ہے۔
کچھ یقیں کچھ گمان کی دلی
ان گنت امتحان کی دلی
خواب، قصہ، خیال، افسانہ
ہائے، اردو زبان کی دلی
شاید اسی وجہ سے خدائے سخن میر تقی میر ، استاذ غلام ہمدانی مصحفی ، ذوق اور حبیب جالب جیسے جدید اور قدیم اہل سخن نے دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور اس شہر سے بچھڑنے کے بعد جدائی کے آنسو بہائے۔ خصوصاًمیر نے تو فراق دلی کا مرثیہ اتنا زیادہ لکھا کہ اس کو پڑھتے ہوئے کوئی بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے گا کہ میر نے دلی کی شان میں مبالغہ کیا ہے۔ لیکن آج جب خود اس شہر کو وداع کہنے کا وقت آیا تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ میرکو دلی سے اس قدر لگاؤ کیوں تھا اور دلی کے لٹنے کا غم انہیں اس قدر کیوں ستا رہا تھا۔واقعی میرکا ایک ایک شعر دل کو چھلنی کر دینے والا ہے۔
دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
یا پھر
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسمان کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
جب سے احباب کو پتہ چلا ہے میں دلی چھوڑنے والاہوں ، فون کا تانتا بندھ گیا ہے ، بار بار فو ن ریسیو کرتے کرتے تھک سا گیا ہوں۔ اب غصہ بھی آنے لگاہے اور کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگتا۔ آج میں نے رات کا کھانا نہیں کھایا ،یہ بھی یاد نہیں رہا۔ دل اداس ہے۔ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ دوست بھی عجیب ہوتے ہیں لڑائی جھگڑا بھی کریں گے اور پھر فوراً ہی منانے آجائیں گے۔ ویسے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دہلی میں میری کبھی کسی سے لڑائی بھی ہوئی ہو۔ ہاں ہاٹ ٹاک بہتوں سے ہوئی لیکن یا تو اس نے منا لیا یا ہم خود ہی من گئے۔ شاید اسی وجہ سے دوستوں کے ساتھ گذارے لمحے اور دہلی کی علمی و ادبی رونقیں کچھ زیادہ ہی جذباتی بنا رہی ہیں۔
ابھی ابھی تھوڑی دیر قبل جے این یو سے ایک دوست نے فون کیا ہے اور گذارش کی ہے کہ میں دہلی میں گذارے ہوئے لمحات کو قلم بند کروں ۔ اُس نے کئی خوبصورت مشورے بھی دئے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ میں اس میں اپنے چھوٹے چھوٹے تجربات کو شامل کروں ۔ میں سوچ رہا ہوں تجربات تو ان کے ہوتے ہیں جنہوں نے ایک عمر یں گذاری اور دنیا دیکھی ہو ، تجربات کی بھٹی میں تپے ہوں اور زندگی میں کچھ کر گذرے ہوں۔میں تو ابھی مشاہدۂ حق اور موجودات کی حقیقت کے ادراک ہی کی کوشش کر رہا ہوں۔
۔