بدھ، 14 مئی، 2014

اس کی آنکھیں

محمد علم اللہ اصلاحی
ترگڑی گاوں میں دماغی بخار سے بچوں کے مرنے کی افواہیں گشت کر رہی تھیں۔ لیکن میڈیا اب تک خاموش تھا، ممکن ہے حکومت کے دباو یا منتظمین کے سخت رویہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہو ۔ لیکن ہلاک ہونے والوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی۔ ایک ماہ میں اسی بچوں کی موت ہو چکی تھی اور سو سے زیادہ ہسپتالوں میں تھے۔عوام اور سماجی کارکنان کی آواز تیز ہونے لگی تھی ،سوشل میڈیا میں بھی یہ خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیلی ۔ سماجی حلقوں سے آوازیں اٹھنے لگیں ، سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر لیڈران کی بھی آمد ہونے لگی۔اور پھر چور مچائے شور کے مصداق میڈیا نے بھی اپنی ذمہ داری طوعا و کرہا نبھائی۔آخر حقیقت حال کو میڈیا بھی کب تک چھپاتی ۔
ایک صحافی کی حیثیت سے میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا ۔گاوں شہر سے زیادہ دوری پر نہیں تھا ۔اس لئے ہم نے شام کو ہی ٹھنڈے وقت نکلنا مناسب سمجھا ۔ارادہ یہی تھا کہ رات تک واپس لوٹ آئیں گے ۔اور جب ہم گاوں پہنچے تو وہاں عجیب و غریب منظر تھا ۔شہر کی طرح زیادہ بھیڑ بھاڑ بھی نہیں تھی ۔کئی لوگوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ گاوں والوں نے اس موت کا سبب آسیب اور بلا کو سمجھا تھا ۔اس لئے کئی لوگ گھر بھی چھوڑ چکے تھے۔ کھڑکیوں سے اکا دکا جھانکتی عورتیں یا حقہ کی غڑغڑاہٹ اور بیڑی کے مرغولوں کے بیچ تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے بیٹھے ہوئے بزرگ دکھائی دے رہے تھے جو جانے کیا آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اکا دکا گھروں سے چراغوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔
ایک بزرگ سے ہم نے اس بیماری کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے دوسری گلی میں داخل ہو جانے کے لئے کہا ۔ہمارے قدم دھیرے دھیرے کہانی کی تلاش میں بڑھتے جا رہے تھے۔بزرگ کی ہدایت کے مطابق سب سے پہلے ہم گاؤں میں ان خاندانوں سے ملنے پہنچے جن کے بچے اس بیماری کی وجہ سے حال سے ماضی میں سما چکے تھے۔ ان کے دکھ کی کہانی بھی بڑی عجیب تھی۔ ہم جن جن خاندانوں کے پاس گئے ان میں سے زیادہ تر کے گھروں پر تالے جھولتے ہوئے ملے۔ پوچھ گچھ کرنے پر معلوم ہوا کہ بچے کے ماں اور باپ دھان کاٹنے گئے ہیں۔"وہ آپ کو کھیت میں ملیں گے یا پھر اوپری ٹولہ میں جہاں پینے کا پانی آتا ہے لانے گئے ہوں گے۔" لوگوں نے بتایا۔ یہ سن کر تعجب ہوا اور کافی حیرانی بھی۔
"کل ہی تو ان کے بچے کی موت ہوئی ہے اور یہ آج ہی کام پر چلے گئے !‘
ہم نے اطلاع دینے والے سے پوچھا
‘‘ صاحب ، جانے والا تو گیا۔ اب جو زندہ ہے وہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کیا ؟ اور کھائے گا نہیں تو کیا بھوکا مرے گا ؟ ‘‘اس جواب میں بھوک ، غربت اور زندگی کا پورا فلسفہ سمایا ہوا تھا۔میرا قلم تیزی سے نوٹ بُک پر چل رہا تھا۔
کئی خاندانوں سے ہم نے ان کے کھیتوں میں ہی جا کر ملاقات کی۔رات کافی بھیگ چکی تھی۔ ہمیں خبروں اور تصاویر کے لئے شہر میں واقع ہاسپیٹل بھی جانا تھا۔ بیمار بچوں کا علاج وہیں ہو رہا تھا۔ ہسپتال پہنچے تو عجب ہی ماحول تھا۔ کئی عورتوں کے رونے اور بچوں کی سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ۔ہسپتال کے باہر کچھ لوگ سو رہے تھے، کچھ جاگ رہے تھے ۔ ہسپتال کے حالات کا اگر تفصیل سے تذکرہ کروں کئی صفحے بھر جائیں گے لیکن اس کی حالت زار کی تصویر مکمل طور پر نہیں بن پائے گی۔ یہ ہسپتال کیا تھا ، اس کے نام پر مکمل مذاق تھا۔ کوئی سہولت نہیں ، مشینیں خراب ، دوائیں ندارد لیکن علاج چل رہا تھا اور بچے مر رہے تھے۔
ہم سیدھے سی ایم او کے کیبن میں داخل ہو گئے ،ڈاکٹر اونگھ رہا تھا جو شاید دروازے کی کھٹ کھٹ سے بیدار ہوا ۔ہم نے اسے اپنا مدعا بتایا۔ سی ایم او نےایک ڈاکٹر کو بلا کر کہا کہ وہ ہمیں اس بیماری سے متاثر بچوں کے وارڈ میں لے جائے۔ وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گیا جس کے باہر دروازے کے ٹھیک اوپر سبز رنگ کا ایک بورڈ لگا تھا ، جس پر لکھا تھاانسفلائٹس وارڈ۔ ہم کمرے میں داخل ہو گئے تھے ۔کراہتے بچوں اور بلکتےی ماوں کی آواز کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔
بستروں پر جو بچے لیٹے ہوئے تھے، ان کی ناکوں ، ہونٹوں اور ہاتھوں میں طرح طرح کے پائپ لگے تھے جو کمرے کے خوفناک ماحول کو اور بھی پر اسرار بنا رہے تھے۔ مجھے تصویریں لینی تھیں ، لیکن میں اس خاموش فضا میں اپاہجوں کی طرح ساکت کھڑا تھا، جیسے میرے ہاتھوں نے کام کرنا بند کر دیا تھا، دس پندرہ منٹ تک تو میں نے کوئی تصویر کھینچی ہی نہیں۔راہ چلتے ہوئے، عام چیزوں کی تصویریں کھینچنے اور ان میں مختلف جذبات کی رویں تلاش کرنے والے کی آنکھیں آج جیسے ٹھٹک گئی تھیں۔فوٹو گرافی کی ساری تیکنک ، سارا علم جیسے غائب ہو گیا تھا۔میرے اوپر جیسے جھر جھری سی طاری ہو گئی ۔
کچھ دیر بعد میں اپنی حالت پر قابو پا چکا تھا اور تصویریں کھینچنے کی تیاری کرنے لگا تھا، میرا ساتھی ڈاکٹر سے کچھ باتیں کر رہا تھا، لیکن میں سامنے پڑی لڑکی کی طرف جیسے کھنچا کھنچا چلا گیا۔ چھ یا سات سال کی عمر ہوگی اس کی۔ اس کا جسم جیسے سوکھ چکا تھا،محض آنکھیں چمک رہی تھیں ،ہاتھ میں گلوکوز ڈرپ کی سوئی والی اسٹرپ لگی تھی۔ جس میں خون کے نشان بھی صاف نظر آ رہے تھے ۔چہرے پر مچھر بھن بھن کر رہے تھے جنہیں میں اچھی طرح دیکھ سکتا تھا ۔ اس نیم تاریک ماحول میں آنکھوں کی سفیدی کچھ زیادہ ہی ابھر آئی تھی۔ جس میں سرخی کی لکیریں نظر آ رہی تھیں۔ مجھے کلیم نجارو آتش فشاں کی تصویریں یاد آئیں، وہ برف پوش آتش فشاں پہاڑ جو وقتاً فوقتاً پھٹ پڑتا ہے۔میرے اندر ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔ خود کو جٹاتے ہوئے میں اس کے قریب گیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے اوپر کی جانب دیکھ رہی تھی۔ میں ٹاپ اینگل سے اس کی تصویر اتارنے کی کوشش کر نے لگا، اس کی بڑی بڑی آنکھیں لینس کے اندر سے اور بھیانک نظر آنے لگیں ۔ گویا وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیوں لے رہے ہو میری تصویر۔ تمہیں نظر نہیں آ رہا میں بیمار ہوں !کیا تم میری بے بسی کا مذاق اڑانا چاہتے ہو ۔
میری انگلیاں بٹن پر جیسے جم گئیں اور تمام کوششوں کے باوجود میں اس کی تصویر نہیں لے سکا۔وہ آنکھیں کیمرے کے لینس میں ویسی ہی جمی رہیں۔ اور تبھی مجھے بچپن میں ہمارے چچا کے گھر پلے لیبرے ڈور کتے کی یاد آ گئی۔ جب وہ کھانے کے برتن میں منہ ڈال کر چپر چپر کھاتا تھا ، تب اس کے پاس جا کر کھڑا ہونا کافی مشکل تھا۔ وہ کھانا چھوڑ کر اپنی آنکھوں کو کھول کر گھورتا۔ اس کے اوپری جبڑے سے دو نوک دار دانت باہر نکل آتے ، اس کے دونوں کھڑے کانوں کے درمیان کی کھال پر گہری نالیاں سی بن جاتیں اور اسکےغرانے کی ہلکی مگر خوفناک آواز آتی۔ مجھے اس لڑکی کی آنکھیں دیکھ کر ڈر لگنے لگا۔ وہ اب لڑکی کی آنکھیں نہیں تھیں ۔مجھے لگا جیسے کتے کی طرح لپک کر وہ میری گردن میں اپنے نوکیلے دانت گھسا دے گی۔ میں ڈر کے مارے اوپر سے نیچے تک لرز اٹھا ۔وہ آنکھیں میرے پورے وجود پر چھانے لگی تھیں۔ میں وہاں سے ہٹ ہی رہا تھا کہ ساتھ آئے ڈاکٹر کی باتیں سن کر اور زیادہ خوف زدہ ہو گیا ۔ اس نے بے فکری سے کہا ،” یہ لڑکی دماغی طور پر مر چکی ہے۔ آپ چاہیں تو تصویر لے سکتے ہیں اسے کچھ نہیں نظر آ رہا۔ ایک دو دن میں یہ جسمانی طور پر بھی مر جائے گی۔
ڈاکٹر نے مجھ سے جو کچھ کہا ، شاید وہ اس کی کوشش تھی مجھے معمول پر لانے کی ، لیکن وہ اپنی کوششوں میں ناکام ہی رہا۔پیشہ ور ہونے کے ناطے میں نے کچھ تصویریں ضرور لیں ۔لیکن یہ تصویر اور وہ لڑکی میرے اعصاب پر برابر چھائی رہی۔
اس واقعہ کے ہوئے کئی سال گذر گئے ۔ میں نے جاننا بھی نہیں چاہا کہ اس بچی کا کیا ہوا ، زندہ رہی یا مر گئی۔وہ تصویر اب بھی میرے پاس ہے۔ خالی وقت میں میں اپنے کیمرے میں تمام تصاویر دیکھتا ہوا ماضی کو جیتا ہوں لیکن اس تصویر پر میں ایک پل بھی نہیں ٹھہرتا۔ کیوں ؟ شاید اس لئے کہ اس کی آنکھوں میں جو سوال تھا اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔
alamislahi@gmail.com