بدھ، 19 فروری، 2014

سابق نوکرشاہ اوشارانی کی اسیری کاقصہ

محمد علم اللہ اصلاحی 
جھارکھنڈکے برسامنڈاسنٹرل جیل میںبند قیدیوںسے ملاقات کے اس سلسلے کی اگلی کڑی جھارکھنڈ کمیشن کی سابق کنٹرولر امتحانات محترمہ اوشا رانی ہیں ،جن کی عمر60سال سے بھی زیادہ ہے۔اوشا رانی کا تعلق ریاست صنعتی شہر جمشید پور سے ہے۔انھوں نے رانچی یو نیورسٹی سے انگریزی میں بی اے اور ایم اے اس وقت کیا، جب تعلیم کی اہمیت کا لوگوں کو احساس بھی نہیں تھا۔یہ خود کہتی ہیں میں نے جتنی تعلیم حاصل کی تھی ہماری برادری یا قوم میں اتنی تعلیمی لیاقت کا حامل کوئی بھی نہیں تھا اسی لئے میں نے ایک عیسائی نوجوان سے شادی کی جو خو د بھی پڑھے لکھے اور اعلی ڈگریوں کے حامل تھے۔اوشا رانی ابھی زیر سماعت قیدی کی حیثیت سے ہی زندگی گذار رہی ہیں۔ان پر 2008میں جے پی ایس سی کے امتحانات میں ہیر پھیر کا الزام عائدکیاگیاتھا۔محترمہ گزشتہ ایک سال پانچ ماہ سے یہاں بند ہیں۔
 باہر کی دنیا سے جیل کے اندر کی دنیا کس قدر مختلف ہے؟اس سوال کے جواب میںاوشارانی کا کہنا تھا ، دیکھئے باہر کی دنیا تو ایک الگ ہی دنیا ہے، دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔جیل امن و سکون سے رہنے کی جگہ نہیں ہے،یہاں کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا سب کچھ اپنے مقررہ وقت پر کرنا پڑتا ہے جبکہ باہر ایسا نہیں ہے۔ آپ یہاں کسی سے ہنسی مذاق بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں رہتے رہتے لوگوں کا خیال اتنا زیادہ چڑچڑا پن اور پریشان کرنے والا ہو چکا ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی کبھی بڑی بڑی لڑائیاں ہو جاتی ہیں اور خواتین میں تو یہ سب کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں پریشانی ہی پریشانی ہے ہر ایک کی اپنی الگ بپتا اور الگ کہانی ہے۔
جیل میں گذرنے والے اپنے روز و شب کے بارے میں اوشا رانی بتاتی ہیں’ ایسے تو گھر پر بھی صبح سویرے اٹھ جانے کی عادت تھی لیکن یہاں یہ زندگی کا حصہ ہے جیسے، صبح ناشتہ کے بعد روزانہ تھوڑاوقت عبادت میںگزارتی ہوں اور پھر سارے ایف آئی آر کو گہرائی سے پڑھتی اور جائزہ لیتی ہوں جس میں بغیر وجہ میرے اوپرالزامات لگائے گئے تھے۔اسے دیکھتے ہوئے دن میں میرا چار سے پانچ گھنٹے کا وقت گزر جاتا ہے، اس درمیان میرے خیال میں جو کچھ بھی آتا ہے، خاص طورپر اس معاملے سے ،اسے ڈائری پر نوٹ کر لیتی ہوں۔ اس سے میں اپنے وکیل کو بھی بہت کچھ بتا سکتی ہوں، اسی طرح جب شام ہوتی ہے تو میرا وقت عام طورپر کھیل میں گزرتا ہے، اس کے لئے ہم جیل کے اندر ہی اپنے قیدی ساتھیوں کے ساتھ مختلف طرح کے کھیل کھیلتے ہیں۔یہ کھیل بس یونہی ہوتی ہے۔ شام کو جب کھیلتے کھیلتے تھک جاتے ہیں تو اپنے کمرے میں لوٹ جاتے ہیں جہاں دوستوں سے چپٹ کرتے سو جاتے ہیں جہاں تک پڑھنے کی بات ہے تو میرا زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا ہے۔ یہاں قانون کی کتابیں پڑھتی ہوں اور جاننے کی کوشش کرتی ہوں کہ جو کیس ہمارے اوپر لگائے گئے ہیں وہ پتہ کیا جائے تاکہ مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
جیل کے بارے میں پہلے سے کیا جانتی تھیں؟یہ پوچھے جانے پر وہ کہتی ہیں’ پہلے سے کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی بس وہی اخبار اور میگزین میں جو کچھ پڑھا یا فلموں میں دیکھی تھی وہی۔ اس کے علاوہ پہلے سے مجھے کچھ بھی پتہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں جیل کی بہت خراب تصویر میرے من میں تھی لیکن یہاں آنے کے بعد میری سوچ میں تبدیلی آگئی‘! اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں’ میں نے اسے قریب سے دیکھا اور جانا کہ حقیقت ہے۔ اخبار ،میگزین یا کسی سے زبانی سنی باتوں اور خود دیکھے ہوئے حالات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔باتوں باتوں میںہم نے ان سے پوچھا کتنی فلمیں دیکھی ہیں آپ نے؟ دماغ پر زور ڈال کر سوچنے کی کوشش کرتے ہوئے،اب مجھے کوئی نام یاد نہیں آ رہا ہے کافی دن ہو گئے۔ہم نے جب پوچھا کہ عوام کو جیل کی دنیا کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ چل پاتا، اس کی کیا وجہ ہے انتظامیہ کی سختی یا پھر میڈیا سے جڑے لوگوں کا تجاہل عارفانہ؟ اوشا رانی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں دونوں وجہیں ہیں۔آپ کے خیال میں فلموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے، اس میں حقیقت سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟ اوشا رانی کہتی ہیں’’ دیکھئے صحیح بات تو یہ ہے کہ فلم میں حقیقت کم ہوتی ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ جیل میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب کچھ دکھا دیا جائے۔البتہ ہاں غلط چیزوں کو نہیں دکھانا چاہئے ،اس سے غلط اثر پڑتا ہے۔توکیا فلمیں کرائم کو بڑھاوا دیتی ہیں ؟اس سوال کااثبات میںجواب دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں’جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فلموں سے جرائم کو فروغ مل رہا ہے اور اس سے بچے جرم کرنا سیکھ رہے ہیں۔ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ فلم نے جرم کے راستے کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔وہ مزید کہتی ہیں’ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ فلموں نے شائقین میں جرم کرنے کی ہمت اور حوصلہ پیدا کر دیا ہے خاص کر انگریزی فلموں سے، اس لئے یہاں پر یہ ضرور کہوں گی کہ فلم میں کم سے کم آئیڈیا نہیں دینا چاہئے۔‘‘ فلم بنانے سے پہلے لوگوں کو ہر طرح سے سوچنا چاہئے کہ اس کے مثبت اور کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔درست بات تو یہ ہے کہ فلمیںCertain point میں بننی چاہئے۔اس کے علاوہ کہہ سکتی ہوں بنانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے کہ ہم کیا پروسنے جا رہے ہیں۔آپ کے خیال میں کس طرح کی چیزیں خاص کر جیل کے بارے میں دکھائی جانی چاہئے ،اس سوال پرتھوڑی دیر سوچنے کے بعد اورشا رانی کہتی ہیں’’ جیل کے اندر جو بچے ہیں ان کے اوپر بہتر کام کیا جا سکتا ہے۔ جیل میں فلم کیلئے یہ ایک اچھا موضوع ہے‘‘!کیا جیل میں لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے؟ عموماً فلموں میں جیل کی یہ تصویر دکھائی جاتی ہے ،کبھی کبھی اخباروں میں بھی اس طرح کی خبریں آتی ہیں ، اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں’’ہاں ہاں بالکل ، میں ابھی تھوڑی دیر پہلے اس بارے میں آپ کو بتائی تھی دراصل ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ایک جگہ رہتے رہتے آدمی چڑ جاتا ہے۔ اس لئے غیر روحانی طور پر نہ چاہتے ہوئے بھی چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ جاتا ہے اور نوبت لڑائی جھگڑے تک آ جاتی ہے۔ خواتین کے ساتھ یہ زیادہ ہوتا ہے۔کسی بچہ نے کمرہ کے آگے پیشاب کر دیا، کسی نے کسی کے بارے میں کسی کے پاس کچھ کہہ دیا یا پھر اور بھی اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بن جاتی ہیں لیکن معاملہ جلد ہی پھر نمٹ بھی جاتا ہے،کبھی کبھی اس طرح کے حالات خطرناک صورتحال اختیار کر جاتے ہیں‘‘۔ اوشا رانی بڑی صفائی سے مسکراتے ہوئے کہتی ہیں ممکن ہے مرد قیدیوں میں ایسا ہوتا ہو گا،خواتین میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔مستورات جیل کے بارے میں کچھ بتائیے ؟کیابتاؤں ؟ مجھے لگتا ہے کہ خواتین کو جتنا حق ملنا چاہئے اتنے نہیں ملتے ہیں۔ یہ ایک پہلو ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے میں تفصیل سے نہیں بتا سکتی۔ ذمہ داری داران خود سروے بھیجیں اور اصلی مسئلہ کو جاننے کی کوشش کریں تو کئی اہم چیزیں آ سکتی ہیں۔
سنا ہے جب لوگ شروع شروع میں جیل آتے ہیں تو کئی کئی دن تک نیند نہیں آتی، بہت پریشان ہوتے ہیںلوگ؟کیاخیال ہے آپ کا؟،یہ سنتے ہی اوشا رانی کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور اپنے آنسو?ں کو اپنے ساڑی کے پلو سے پونچھتے ہوئے کہتی ہیں ’بہت تکلیف ہوتی ہے اسے میں بیان نہیں کر سکتی، میں خود اتنا روتی تھی، اتنا روتی تھی کہ… دو دن تک کچھ کھائی نہیں، جب میں یہاں آئی تھی تو اسی کے ایک یا دو دن بعد یہاں رانچی میں زلزلہ آیا تھا سارے دروازے بند تھے ہم سب گھروں سے باہر نکل آئے لیکن اس کے باوجود مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اندر ہی مر جائیں گے۔ آج بھی اس دن کو یاد کرتی ہوں تو کانپ جاتی ہوں۔باہر کی دنیا میں جو شخص بھی جیل میں رہ کر آتا ہے لوگ اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے آخر کیوں ؟اس سوال کے جواب میںانہوںنے کہا’’ہم بھی اس بات کو برابر محسوس کرتے ہیں کہ ہم بدنام ہو چکے ہیں، پتہ نہیں چھوٹ کر جب سماج میں جائیں گے تو کیا وہی عزت ملے گی جو پہلے تھی؟وہ میڈیا والے جو کل تک چیخ چیخ کر جج سے پہلے ہی فیصلہ سنا دے رہے تھے، چھوٹنے کے بعد ہماری بے گناہی کابھی ایسے ہی اعلان کریں گے؟(ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ) ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہے لیکن یہ سب سوچ کر بہت تکلیف ہوتی ہے‘‘۔
اس سوال پر کہ آپ اپنے خاندان کو کتنا مس کرتی ہیں؟ اوشا رانی کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے ہیں! ایک کانسٹیبل خاتون پولیس آتی ہے اور پانی کا گلاس دیتی ہے۔ پانی کے گھونٹ پینے کے بعد تھوڑے سے وقفے کے بعدکہتی ہیں’’ میں میرے شوہر دونوںملازمت کرتے تھے، اسی وجہ سے ہمیشہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہے۔ اب ریٹائر ہوئی تھی تو یہ وقت تھاکہ دونوں ایک ساتھ وقت گزاریں مگر قسمت کو یہ منظور نہیں تھا۔‘‘ پھر آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور تھوڑے توقف کے بعد اوشا رانی بتاتی ہیں’ یہاں آنے کے بعد اپنے بھی سب غیرہو گئے کسی نے بھی ساتھ نہیںدیا سب یہی سمجھنے لگے کہ میں بری ہوں تبھی تو جیل آئی ہوں۔صرف میرا بیٹا مجھے نہیں بھولا، اس نے ہمیشہ مجھے ہمت دلایا اور کہا کہ امی تم بے گناہ ہو اور ایک دن ضرور بے گناہ یہاں سے جاؤ گی۔( روتے ہوئے) خدا میرے بیٹے کو زندہ رکھے!۔