پیر، 15 اپریل، 2013

جامعہ کا اردو میڈیم اسکول بنام انگلش میڈیم


محمد علم اللہ اصلاحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اردومڈل اسکول کا ذریعہ تعلیم اب انگریزی کیا جا رہا ہے۔نئے تعلیمی سال2013-14 سے اس اسکول میں تمام مضامین کی تعلیم انگریزی زبان میں ہوگی۔شیخ الجامعہ نجیب جنگ نے عصر حاضر میں انگریزی کی ضرورت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ساتھ ہی اسکول کے بچوں کے یونیفارم تبدیل کرنے اوراسمارٹ کلاس روم بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ جامعہ کے مڈل اسکول میں آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اس اسکول میں ذریعہ تعلیم ابھی تک اردو اور ہندی تھا۔ معتبر ذرائع سے موصولہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ ماہ اس اسکول کے اساتذہ کے ساتھ شیخ الجامعہ (وی۔سی۔) کی ایک میٹنگ ہوئی ۔جس میں جون 2010 میں ہی ہوئے فیصلہفیصلہ کے مطابق کہ اِس اسکول میں چھٹی اور اس کے بعد کی کلاسوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی کر دیا جائے۔تاہم متعدد وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہو سکا تھا۔اب کی وائس چانسلر نے تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعدباضابطہ اِس اِسکول میں پہلی جماعت سے ذریعہ تعلیم انگریزی کر دینے کا با ضابطہ فیصلہ لے لیا ہے۔وی سی نے اساتذہ کی بد ذوقی پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اوراب شعبہ تعلیم کی جانب سے منعقد ہونے والے ورکشاپ اور تر بیتی پروگرام میں آنے والے سیشن سے پہلے پہلے اپنے آپ کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہل بنا لینے کے لئے کہا ہے۔

یہ خبر ابھی حال ہی میں اخبارات کے ذریعہ دیکھنے کو ملی۔اطلاعات کے مطابق اس فرمان کے آنے بعد کچھ اساتذہ وی سی سے ناراض ہو گئے ہیں وہیں ایک مرتبہ پھر حسب معمول بحث و مباحثہ اور بیان بازی کا بازار گرم ہو گیاہے۔جامعہ کے کچھ اساتذہ سمیت بعض افراد کو یہ فیصلہ جامعہ کے وجود کے لئے خطرہ محسوس ہو رہا ہے تووہیں بعضوں نے اس کی پرزور حمایت کر کے شیخ الجامعہ کو مبارکباد پیش کی ہے۔اول الذکر گروپ میں مسلمانوں کا بنیاد پرست طبقہ اور جامعہ برادری کے ا فراد بھی شامل ہیں۔ان کا کہنا ہے :”اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگریزی ترقی کی زبان ہے، لیکن لگتا ہے اب ترقی پسند ہونے کا مطلب اپنی جڑوں کو ہی کاٹنا ہو گیا ہے“ اس فیصلہ کی مخالفت کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں، مگرجامعہ کی تاریخ اور اردو روایت کو ہم قطعی طور پر ختم نہیں ہونے دیں گے۔اس گروہ کی وکالت کرنے والوں میں سماجی کارکن ،صحافی اور آر ٹی آئی اکٹی وسٹ افروز عالم ساحل کا کہنا ہے کہ دراصل، جامعہ کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی سلطنت کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں اور انگریزی تعلیم کی مخالفت میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں 1920 میں جامعہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ان بزرگوں کی نگرانی میں سب سے پہلے جامعہ کے نام پر صرف ایک مڈل اسکول کی بنیاد رکھی گئی، جسے مدرسہ ابتدائی کے نام سے جانا گیا۔ اور آگے چل کر وہی مدرسہ ابتدائی ایک یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا، جسے آج پوری دنیا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے جانتی ہے۔ مگر یقینا یہ افسوس کی بات ہے کہ آج اسی اسکول پر انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اپنے وجود کو بچانے کا سوال پیدا ہو گیا ہے۔

افروز عالم ساحل ڈاکٹرذاکر حسین (مرحوم) کے ایک قول کہ ” کئی بار ادارے آدرشوں کا قبرستان بن جاتے ہیں جن کے لیے ان کو قائم کیا جاتا ہے۔“کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ذاکر حسین کی یہی بات آج سچ ثابت ہو رہی ہے، اسی تاریخی اسکول کو انگریزی میڈیم اِسکول بنایا جا رہا ہے۔جس کا قیام ہی مادری زبان کے فروغ کی خاطر عمل میں آیا تھا۔وہ کہتے ہیں اس صف میں شامل گاندھی جی نے بھی بہت شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کیا اور سمجھا تھا کہ تعلیم کا ذریعہ ہندوستانی زبانوں میں ہی ہونی چاہئیں۔وہ کہتے ہیں اسی سبب جامعہ میں مادری زبان کو ہر زمانہ میں اولیت دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں کے تعلیمی نظام نے روایتی اور جدید تعلیم میں ایک رشتہ پیدا کیا اور نوجوانوں کو اپنی ثقافت اور ہندوستانی زبانوں پر ناز کرنا سکھایا۔ وہ کہتے ہیں جامعہ کی اسی خصوصیت نے اسے اپنے ہم عصر اداروں کاشی وِدیاپیٹھ(بنارس) اور گجرات وِدیا پیٹھ(احمدآباد)سے بہت آگے پہنچا دیا۔افروز عالم ساحل کے مطابق یہاں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ 30 سال سے اردو میڈیم میں پڑھا رہے ہیں اور اب ان کے لئے انگریزی میں پڑھانا اتنا موثر نہیں ہو گا۔ان کے بقول ہمارا یہ اِسکول ہندوستان کی تحریک آزادی کا ورثہ ہے، اسے بچائے رکھنا بہت ضروری ہے۔ انتظامیہ چاہے تو اور بھی انگریزی میڈیم اِسکول کھول سکتی ہے۔کیونکہ جامعہ کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اس طرح کے مزید ادارے کھول سکے۔وہ کہتے ہیں ویسے بھی جامعہ میں پہلے سے ہی ایک سیلف فائنانس (خود کفالتی) انگریزی میڈیم اسکول موجود ہے جس نے کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔
وہیں دوسرے گروہ جس میں دانشور طبقہ،نوجوان اور جدید خیالات کے حامل افراد شامل ہیں کا کہنا ہے کہ شیخ الجامعہ کا یہ فیصلہ نہ صرف برمحل بلکہ حالات کے تقاضے کے مطابق دیر آید درست آید کے مصداق ہے ،جس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ جن تقاضوں کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تبلیغ دین کی غرض سے عجمی زبانیں سیکھنے کی نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی تھی بلکہ حکم دیا تھا۔اورجن حالات کے تحت مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کر دیا تھا بعینہ اسی طرح شیخ الجامعہ نے بھی وقت کی نبض کو پہچاننے کا کام کیا ہے۔اس طبقہ کے بقول انگریزی زبان کی روزافزوں بڑھتی ہوئی مقبولیت، انٹر نیٹ، کمپیوٹر، انجنیرنگ، سائنس اور میڈیکل کے میدانوں میں اس کی بڑھوتری، اور اس سے پیدا ہونے والی آسانیوں کے سبب اس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔

پیشہ سے معلم ،مترجم اور قلم کار فارقلیط رحمانی گجرات میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔”ہمارے اردو اسکول کے اطراف جو مسلمان آباد ہیں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ملک میں تلاش معاش میں اردو کی تعلیم رکاوٹ بنتی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے بچوں کوگجراتی، انگریزی اور ہندی اسکولوں میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ ہم نے اس کا یہ حل نکالا کہ ہم اردو اسکول میں ہی بچوں کو گجراتی و ہندی کی تعلیم دینے لگے،چنانچہ جیسے ہی ہم نے ایسا کیا ،ہمارے اسکول میں بہار آ گئی۔ اوربچوں کی تعداد پھر بڑھ سے گئی۔وہ کہتے ہیں کچھ عجب نہیں کہ دہلی کے والدین نے بھی اپنے بچوں کو بجائے اردو کے انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں بھیجنا شرو ع کر دیا ہو،اور شیخ الجامعہ نے وقت کی نبض کو پہچانتے ہوئے جامعہ کے اردو اسکول ہی میں ہماری طرح انگریزی تعلیم کا با قاعدہ انتظام کر دیا ہو۔ جو کام ہم نے حکومت کی مرضی کے خلاف غیر قانونی طور پر کیا وہی کام شیخ الجامعہ نے قانونی طور پر با قاعدہ کر دیاجس پر وہ بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں “۔

وہیں بعض ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ بچّوں کو ان کی مادری زبان ہی میں تعلیم دی جانی چاہیے، کیونکہ اس سے بچّے موضوع کو بآسانی سمجھ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس کسی اور زبان میں تعلیم دی جاتی ہے تو بچّوں پر اضافی بوجھ بن جاتا ہے اور بچّے بنیادی اور اصولی باتیں ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے۔اور آج کے اس مسابقت بھرے ماحول میں انسان کا کامیاب ہونا صرف اس کی زبان پر منحصر نہیں ہوتا۔اس معاملہ میں زبان کے علاوہ بھی دیگر بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔جیسے متعلقہ شخص کا اپنی فیلڈ کے متعلق علم، اس کی محنت، اس کا پروفیشنلزم، اس کا رویّہ (ایٹی چیوڈ)، عام معلومات (کرنٹ افیرز) وغیرہ۔

شیخ الجامعہ کے فیصلہ کو نامناسب قرار دیتے ہوئے مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے ایک کمپنی میں (گرافکس)کا کام کرنے والے شوکت پرویز کہتے ہیں جہاں تک بات اردو میڈیم یا انگریزی میڈیم کی ہے تو ایسے بہت سے انگریزی میڈیم کے بچّے ہیں جو "کامیاب" نہیں ہو پاتے اور ایسے بہت سے اردو میڈیم (یا دوسرے ورنا کلر میڈیم) کے بچّے ہیں جو "کامیاب" ہو جاتے ہیں۔وہ مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:” دنیا میں اکثر جگہوں پر انسان ذو لسانی (بلکہ کثیر لسانی) ہوتے ہیں مثلاعرب خطہّ کوہی دیکھیں تو وہاں کے کئی لوگ عربی، انگریزی (اور اب تو اردو، ہندی) بھی بآسانی سمجھ اور بول لیتے ہیں ما فی الضمیر کا مدعا بیان کر لیتے ہیں اور مخاطب کے بیان کردہ مطالب کو بھی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔وہ مزید مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں شام، لبنان (اور فرانس کی نو آبادیات رہ چکے ممالک کا) تعلیم یافتہ طبقہ بخوبی عربی، فرنچ، اور انگریزی میں گفتگو کر لیتا ہے۔ان کے مطابق یوروپی ممالک کا اکثر تعلیم یافتہ طبقہ اپنی قومی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم برّصغیر میں رہتے ہیں تو ہندوستان کی مثال بھی دیکھ لیں اکثر ہندوستانی اپنی مادری زبان (جہاں مادری زبان ہندی نہیں) کے ساتھ ساتھ ہندی بآسانی سمجھ بول لیتے ہیں-ہم اگر خود اعتمادی کے ساتھ انگریزی زبان کو استعمال کرنے لگیں گے تو ہم (اِن شاءاللہ) اس میں بھی مہارت حاصل کر لیں گے۔"ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی ہونا چاہیے" شوکت پرویزاِس بات پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں” ابتدائی تعلیم تو بہر حال مادری زبان ہی میں ہونی چاہیے، لیکن دھیرے دھیرے دوسری زبانیں بھی سیکھنی چاہیے۔اس سلسلہ میں وہ اپنے مخصوص انداز میں اپنا ایک شعر سناتے ہوئے کہتے ہیں۔
تعلیم اور زبان تلک ٹھیک ہے مگر
شوکت کبھی نہ سیکھنا فیشن فرنگ کا

جامعہ کے اس فیصلے کو لے کر مسجل(رجسٹرار) ایس۔ ایم۔ راشد کی جانب سے 14 نکات پر مشتمل جو
اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں لکھا ہے کہ :”وی سی نے جون 2010کو جامعہ کے اردو اسکول میڈیم کی کارکردگی پر نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے انگریزی میڈیم کرنے اور اساتذہ کو بطور خاص انگریزی زبان کی تربیت لینے کے لئے کہا تھا۔لیکن تین سال کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود اس میں کوئی بدلا نہیں آیا۔نا تو اسے انگریزی میڈیم کیا گیا اورنا ہی اساتذہ نے اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کی۔اس نوٹس کے مطابق شعبہ تعلیم کی جانب سے تربیتی ورکشاپ منعقد کرنے پر بھی اسکول کے اساتذہ نے دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔جس پر وائس چانسلر نے خود ہی فیصلہ صادر کرتے ہوئے یہ حکم دیاہے کہ اب تمام ہی مضامین کی تعلیم انگریزی میں ہوگی اوراس کے لئے شعبہ تعلیم کے ڈین ٹریننگ ورکشاپ کا انعقاد کرائے گی۔جس میں اساتذہ انگریزی میں کیسے تعلیم دیں اس کی ٹریننگ لیں گے۔اور نیا اکیڈمک سیشن شروع ہونے سے پہلے پہلے تمام اساتذہ کو اس کا اہل قرار دینا اور خود کو تیار کر لینا ضروری ہوگا“۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وی۔ سی۔ کا بیان بے وقت کی راگنی نہیں ہے۔انہوں نے توتین سال پہلے ہی حالات میں سدھار کی بات کہی تھی اس کے لئے انھوں نے اساتذہ کی خاطر مفت تربیتی پروگرام کا بھی انعقاد کرایا تھا۔تو پھر اساتذہ نے دلچسپی کیوں نہیں دکھائی یہ بہر حال ایک سوال ہے۔کیا یہ سوچنے کی بات بات نہیں ہے کہ جن کے کندھوں پر ملک و قوم کا مستقبل تعمیر کرنے کی ذمہ داری ہے۔ وہی سستی، کاہلی اور بے دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔پھر ان سے کیوں کر یہ توقع کی جا سکتی ہے، کہ وہ اپنے طلباءکی رہنمائی بہتر ڈھنگ سے کر سکیں گے۔جامعہ کا قیام جن مقاصد کے لئے عمل میں آیا تھا اگر آج جامعہ اسے پورا نہیں کر پایایا اس میں کوئی کمی رہ گئی ہے تو بہر حال یہ اساتذہ بھی پوری طرح اس کے ذمہ دار ہیں۔جو لوگ اردو میڈیم اسکولوں کی بات کرتے ہیں یا جو اردو کے اساتذہ وپروفیسران اردو ذریعہ زبان کو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے بچے خود کنونٹ ، ڈی اے وی اور مشنری کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔جس میں جامعہ کے اساتذہ کے بچوں کی بھی بڑی تعدادشامل ہے۔کیا جامعہ اسکول کو اس لئے اردو میڈیم ہونا چاہئے کہ اس میں غریب والدین کے بچے پڑھتے ہیں ؟پھر جامعہ اسکول جب اردو میڈیم تھا تب بھی اس نے کون سا پہاڑ توڑ دیا تھا۔کتابیں اردو میں دستیاب نہیں۔اردو کے اساتذہ تربیت یافتہ نہیں۔بچے صحیح ڈھنگ سے ایک شعر کی تشریح نہیں کر سکتے۔اردو میڈیم سے پڑھے ہوئے بچے اپنی اسی کمی کے سبب ملک کے دیگر مسابقتی امتحانات میں نہیں ٹک پاتے۔یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جانے کے بعد بھی احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے اندر خود اعتمادی (کانفیڈنس) نہیں ہوتی تو اب اس میں کس کی کمی ہے؟۔ کیا مخالفت کرنے والے اس کا جواب دیں گے ؟۔
 The University's Urdu medium schools versus English Medium
alamislahi@gmail.com

2 تبصرہ جات:

گمنام نے لکھا ہے کہ

اس انگریزی اسکول کا کیا ہوا جسکا ذکر اس قصہ میں ہے؟ مسلمانوں کو تو اکیسویں صدی میں کوئی بہانہ مل ہی جائیگا کہ شراب کو حلال کردیں۔ اردو او انگویزی کرنے سے نہ تو کچھ ہوا ہے نہ ہوگا۔ میائوں کا انگریزی اسکول پھر کہیگا کہ گرجا نہ تھا اسلئے تعلیم نہیں ملی۔ کیا حامعہ کو بھی کسی صلیبی کے ہاتھ چلانا ہے؟ کیا اتی ترک کی رسمالخط کا قصہ یہ نہیں کہ وہ ترک زبان کو یورپ میں دیکھنا چاہتا تھا اور صلیبی یورپ ا ب کی زبانوں کو مانتا ہی نہیں۔ میں ڈھونڈھ رہا ہوں لیکن مجھے ایک بھی ایسی قوم نہیں ملی جی مزروری کی عوض اپنی زبان بیچتی ہو۔ اردو رکاوٹ نہیں بلکہ ایک جانب فرقہ پرستی اور دوسری جانب میائوں کی بزھلی ہے۔ کل کو اگر کہا جائے کہ روزگار ملیگا تو کیا دین بھی بدل دیں کۓ یہ نام نہاد ترقی پسند۔ حضور نے جو عجمی زبان سیکھنے کی بات کی تھی تو وہ روٹی اور ٹھاٹھ حاصل کرنے نہیں تھا بلکہ دین حق کو پہنچانے کیلئے تھا۔ کیا ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر قوم ہم سے آگے اور اپنی زبان دوسروں سے بلوانی پر بضد ہے لیکن ہماسی منطق پو کیوں نہیں سوچتے۔ اگر معیار تعلیم ہوتو زبان کا کچھ رخل نہیں ہوتا اور میاں اگر انگریزی کیا عبرانی بھی پڑہائیں تو کچھ نہیں ہونے والا۔ نقالی کچھ نہیں سکھاتی۔کیا کسی دوسری زبان کے مدرس کو آپ ایسا کرسکتے ہیں جو جامعہ میں وی سی کرنا چاہ رہا ہے۔ اصل میں حکومت ایسے ہی کو وی سی بناتی ہے جو مسلمان کو گول گول چکر لگواتا رہے۔ علی گڑہ میں کیا بٹھا دیا یہاں ایک اور اسطرح جو پیسہ مسلمانوں کی ترقی کے نام پر لگا تھا اسکا ۔صحیح استعمال ہوا، ان کو پچھڑے رکھنا

kaaGhaz Qalam نے لکھا ہے کہ

ایک دل جلے نے چڑ کر کہا کہ مرغی کو اگر ہین کہیں تو کیا بڑا انڈہ دیگی یا دن میں دو بار؟ یا صیفو کے ابا کے نانا کی نوابی نہیں کہ چاہنے پر تین تین انڈے دیدے۔ ایک اشتہار میں صیف علی خاں مرغی سے تین انڈے مانگتا ہے وہ دو دیتی ہے (جی ہاں اسی جگہ چولہا کے پاس) اور یہ چڑ کر کہتا ہے کہ ہندی نہیں آتی کیا۔ جو بھی زبان ہو یہ مصنوعی زبان جسکا کہ نام بھی ادھار کیا کہیں خیرات کا ہے (عربی) کو لوگ قومی زبان سے تعبیر کرتے ہیں اور مسلمان کی اکثریت اسکی تشہیر ایسی کرتی ہے مانو نہ کرنے پر انہیں سعودی عرب بھیج دیا حائیگا۔