بدھ، 9 جنوری، 2013

سردی کا قہریا حکومت کی بے حسی



                              سردی کا قہریا حکومت کی بے حسی                         
محمد علم اللہ اصلاحی
برف کے بت ہی بنانے میں وہ رہے مصروف
اور  میں  اپنی   جگہ  برف   میں  تبدیل   ہوا
یہ شعردار السلطنت دہلی کے ان غریبوں پر صادق آتا ہے جنھیں اس کڑاکے کی سردی میں سر چھپانے کےلئے چھت،تن ڈھانکنے کےلئے کپڑے اور ٹھنڈ سے بچنے کے لئے کمبل یا لحاف نصیب نہیں ہو سکااور انھوں نے یونہی ٹھٹھر ٹھٹھر کرموت کو گلے لگا لیا۔اس خبر نے اس سے قطع نظر کہ میڈیا میں اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دی جانی چاہئے ہر حساس اور انسانیت کا درد رکھنے والے دل کو مضطرب اور بے چین کرکے رکھ دیا ہے۔ایسا ملک کی اس راجدھانی میں ہو رہا ہے جسے لندن ،پیرس اور میکسکو جیسا شہر بنانے کاارباب اقتدار کی جانب سے بار بار عزم و ارادہ ظاہر کیاجاتارہاہے۔ ابھی جب کہ پورا موسم بھی نہیں گذرا ہے، 100 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ یہاں کے سب سے بڑے شفا خانہ” آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“ میں مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب عوام بیت الخلاءمیں رات گذارنے پر مجبور ہیں۔جھگیوں ،جھوپڑیوں اور فٹ پاتھوں میںبے چارے ان غریبوںکی پوری زندگی گذر جاتی ہے، مگرجمہوریت کاچوتھا ستون جسے تل کو پہاڑ بنانے کا ہنربھی بدرجہ اتم آتا ہے ،کی نظر ان پرنہیں پڑتی اوراسی سبب وہ اس پر گفتگو کرنا یاپھر اس قدر’ حساس‘موضوع پرحکومت کی توجہ دلانا مناسب نہیں سمجھتی ۔

ہر موسم کی تبدیلی کے ساتھ مرنے والوں کا نیا اعداد و شمار سامنے آتا ہے۔ یہ اعداد و شمار کبھی سرد لہروں کے ہوتے ہیں،تو کبھی لو کے تھپےڑو ں کے ،کبھی سیلاب اور باد و باراں کے تو کبھی حکومتی لا پرواہی اور بیماری کے لیکن اپنے اپنے آشیانوں میں دبکے ہوئے کول کول’ ایسی ‘اور گرم گرم ’ہیٹر‘ کا مزا لیتے امراء،مصاحب اور انسانیت کے’ مبینہ ‘علم برداروںکو اس کی پراہ نہیں ہوتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری حکومت کی ناکامی اور نا اہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ہم نے بڑے بزرگوں سے سنا تھا کہ انصاف پسند بادشاہ رات کو کمبل اور اونی لباس لے کر نکلتے ، تاکہ فٹ پاتھ پر کوئی غریب سردی سے نہ مرے۔لیکن یہ’ احساس ‘جمہوریت کے’ جدید بادشاہوں ‘میں کہاں ہے؟ گاہے بگاہے عدالت کوسرد لہروں سے موت کے اعداد و شمارکا گراف بڑھتے دیکھ کر رین بسیروں اور عوامی الاؤ کا انتظام کرنے کا حکم دینا پڑتا ہے اور حکومت وانتظامیہ کی عام سمجھ والے موضوعات پر بھی عدالت کو ہی پہل کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد بھی اس پر عدالتی سرگرمی کا الزام جڑ دیا جاتا ہے۔بے گھرو ں اور بے موتوں کی موت سے حکومت اور انتظامیہ کی مایوسی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ ملک میں ہر سال کتنے بے گھر مرتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی باضابطہ سرکاری اعداد و شمار نہیں ہے، پھر بھی یہ خیال کہ سب سے زیادہ اموات گرمیوں میں ہوتی ہیں، پھر برسات میں لوگ بے گھر مرتے ہیں اور جو اس وقت بھی بچ جائے اس کا سامناپئے بہ پئے مار کی طرح سردی سے ہوتا ہے غلط نہیں ہے۔گزشتہ سال بھی ایسے ہی موسم میں سپریم کورٹ نے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے برآمدے کے باہر ٹھٹھرتے لوگوں کی تصاویر دیکھ کر دہلی سمیت تمام ریاستی حکومتوں کو اس بات کی ہدایات دی تھی کہ کسی بھی شخص کی موت سردی سے نہیں ہونی چاہئے مگر لگتا ہے کہ حکومت نے غریبوں کی مفاد کی خاطر کسی بھی حکم کو نہ ماننے کی ٹھان لی ہے تبھی تو لاکھوں لوگ یا تو تنگ جھونپڑیوں میں، یا پھر کسی سہارے کی اوٹ لے کر ٹھٹھرتی ہوئے راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ پتہ نہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ یہ لوگ اکثر ترقی کی اسکیموں میں پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔کسی کو بھر پیٹ کھانا نصیب نہیں ہے تو کسی کو سات پشتوں کی فکر ہے۔آدمی موسم سے نہیں، غربت سے مرتا ہے۔ اقتصادی اصلاحات غریبوں کو اور بھی غریب بنا تے جارہے ہےں ۔ملک کا آئین ہر شہری کو جینے کا بنیادی حق دیتا ہے،ہر شہری کو کھانے کے علاوہ سر چھپانے کےلئے چھت اور تن ڈھانکنے کےلئے کپڑے مہیا کرانے کی بات کہتا ہے لیکن جمہوری ،فلاحی اور رفاہی کا موں کیلئے خود کو وقف رکھنے کاراگ الاپنے والی حکومتیں عملی طور پر اس سمت میں کوئی کارگر قدم نہیں اٹھاتیں اور بے گھر لوگوں کی ضروریات پر ان کی زبان گنگ اور بجٹ تنگ پڑ جاتی ہے ۔

ایک طرف تو کہا جاتا ہے ہندوستان دنیا کی گنی چنی بڑھتی معیشت کی علامت ہے اور دوسری جانب آج تک ہم غریب، بے سہارا آدمیوں کےلئے ٹھیک ڈھنگ سے رین بسیرے تک نہیں بنا سکے؟ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں کو ان غریبوں کی فکر ضرور ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے بعد دہلی ہائیکورٹ نے کہا کہ کڑاکے کی اس ٹھنڈ میں ہزاروں بے سہارا لوگ سڑکوں پر راتیں گذارنے کو مجبور ہےں لیکن سرکار اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔ عدالت نے ان 84 عارضی نائٹ شیلٹروں کو دوبارہ سے قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہائیکورٹ نے ماسٹر پلان2021ءکے حساب سے مستقبل کی ضرورتوں کو دیکھنے کیلئے 184 پختہ رین بسیرے بنانے کی بھی ہدایت دی تھی عدالت نے اس سے وابستہ معاملوں میں سبھی ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو بھی سبھی شہروں میں رین بسیروں کے مناسب انتظام کرنے کو کہا تھا۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہاں نصف سے کچھ ہی زیادہ رین بسیرے ہیں جو چل رہے ہیں۔ ان میں بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔حالات اتنے خراب ہیں کہ بے گھر ہونے کے بعد بھی بہت سے لوگ ان میں آنا پسند نہیں کرتے۔کہنے کو حکومتیں ہر سال میونسپل کارپوریشن اور اورنگرپالیکاؤوں کو لاکھوں کروڑوں روپے رےن بسےرے آپریشن کرنے کے لیے دیتی ہے،مگر یہ رقم کہیں بھی صحیح طریقے سے خرچ نہیں کی جاتی۔مثلا 1985 سے دہلی حکومت ہر سال اپنے بجٹ میں رین بسیروں کےلئے الگ سے 60 لاکھ روپے مختص کرتی ہے لیکن اس رقم کا زیادہ تر پیسہ ملازمین کی تنخواہوں، انتظامیہ اور دیگر مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔یقینا یہ المیہ ہی ہے کہ سردی کا موسم بھی غریبوں کےلئے کسی آفت جیسا ہو گیا ہے۔سردی کا موسم بے گھر اور بے سہارا لوگوں کےلئے مصیبت بن کر آتا ہے۔ان کیلئے موسم گرما تو جیسے تیسے فٹ پاتھ پر سوکر کٹ جاتی ہیں لیکن سردی قہر بن کر ٹوٹتی ہے اور ملک کے مختلف مختلف حصوں میں موسم سرما سے ٹھٹھرکر مرنے والوں کی خبریں آنے لگتی ہیں۔

اعداد و شمار اور رپورٹ بتاتی ہے کہ سردی سے مرنے والوں کی تعداد گاؤں کی نسبت شہروں میں زیادہ ہے۔ گاؤں میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے غریب دن بہ دن شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیںمگر شہروں میں ان کے پاس سر چھپانے کیلئے چھت تک نہیں ہوتی۔اور بے چارے موسلا دھار بارش اورخون کو منجمد کر دینے والی سردی حتی کہ تپتی دھوپ میں بھی وہ آسمان تلے رات گزارنے کو مجبور ہوتے ہیں۔امراءواور ملک کے ٹھیکیدارحضرات تو خود گرم ملبوسات‘ حفاظتی تدابیر اور انڈہ‘ مچھلی‘ مرغ اور میوہ جات پر مشتمل غذاںسے اپنے نظام صحت کے گرد مناسب حفاظتی حصار استوار کئے رہتے ہیں لیکن غریب اور مزدور پیشہ افراد اپنی اقتصادی و معاشی ناہمواریوں کے تحت شدید سردی کے ان ایام میں موسم کے برفیلے تھپیڑے سہنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ ناکافی لباس اور مطلوبہ لوازم میسر نہ آسکنے کی وجہ سے امراض میں گھرے رہتے ہیں۔شہروںمیں رین بسیرے بنوانے اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اورنگرپالیکاؤوں اور مقامی منصبوں کی ہے، لیکن انہیں اس جانب توجہ دینے کی فرصت نہیں۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کہیں رےن بسیروں میں فالتو اشیاءرکھی ہونے کی خبریں آتی ہیں تو کہیں دبنگو ںکے قبضے کی حالت سنائی دیتی ہیں جسے ہٹانے کی پولس اور انتظامیہ بھی ہمت نہیں جٹا پاتی۔کئی کی حالت خود عام لوگوں نے اتنی خراب کر دی ہے کہ غریب تو کیا جانور بھی ان میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔

افسوس کہ سماجی انصاف اور اس کے اصول کی وکالت کرتے ہوئے خوشحال طبقہ اپنی جائیداد کو سماج کے حاشیے پر ڈالے گئے لوگوں کی امانت سمجھنے کی بات تو کرتا ہے مگرحکومت کے ساتھ ساتھ سر مایہ کے پیچھے بھاگنے والے سماج کو بھی اس کا احساس نہیں۔ غریب کو بھی سردی لگتی ہے اور ان کے بچوں کو بھی سویٹر،ہیٹرو لحاف کی ضرورت ہوتی ہے،گرمی میںانہیںبھی پانی ،پنکھا اور کولر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔کہا تو جاتا ہے کہ ہمیں ایک حساس سماج کا کردار ادا کرتے ہوئے محروم سماج کے دکھ تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر ملک میں کمبلوں کی تقسیم صرف پریس نوٹس اور اخبارات میں تصویر شائع کرنے کےلئے زیادہ ہوتی ہے۔ کہا تو جاتا ہے کہ ملک سے غریبی کو ختم کیا جائے گا لیکن غریبی نہیں غریبوں کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں ۔صحیح معنوں میں کوئی شخص خود غریب نہیں ہونا چاہتا۔حالات و وسائل ،بد عنوانی اور سماجی و نسلی ناانصافی اور نا برابری غربت کی تعداد بڑھاتے ہیں۔بے شک کئی دہائیوں سے گونج رہے غریبی دور کرنے کے نعرے کھوکھلے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد صرف ووٹ جٹانا ہی رہا ہے۔نظام پر لگے بدعنوانی کے داغ کو چھڑانا نہیں۔یہاں پر سوال محض حکومت کی پیشگی تحفظ یا رےن بسےرں تک ہی محدود نہیں ہے۔سوال حکومت کی ان نئی لبرل معاشی پالیسیوں پر بھی کھڑے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے شہروں میں ایسے غریبوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جن کے سر پر نہ چھت ہے، نہ پیٹ میں دانا اور نہ جسم پر لباس۔ سردی سے غریبوں کو بچانے میں اس وقت کامیابی مل سکتی ہے، جب حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی ترجیحات تبدیل ہوں۔ جل، جنگل، زمین اور اناج سمیت تمام بنیادی ضروریات اور اس سے متعلق پروگراموں کو موثر طریقے سے نفاذکے ساتھ ہی حکومت، انتظامیہ اور سماج سبھی کا فرض بنتا ہے کہ موسم سے جوجھتے ہوئے جان گنوانے والے لوگوں کی مدد کو آگے آئیں۔ صحیح معنوں میںبدلتے موسم سے ہونے والی اموات قومی شرم کی بات ہے جس سے نجات کو اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر موسم کی تبدیلی ایک قدرتی آفات کی طرح یوں ہی قہر برپاکرتی رہے گی۔