جمعہ، 4 جنوری، 2013


   عصمت دری کے خلاف دہلی میں احتجاج کی آندھی
محمد علم اللہ اصلاحی
نئی دہلی
دہلی میں اجتماعی عصمت دری معاملہ پرپوراملک غصے میں ہے، شرمندگی بھی ہے کہ ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ملک کے دارالحکومت میں سرعام سڑکوں پر چلتے گاڑیوں میں لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور آزادی کے ساتھ ان کی عصمت کو تار تار کر دیا جاتا ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ ملک میں عصمت دری کا یہ کوئی پہلا واقعہ ہے یاملک میں درندگی کی ایسی واردات پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔مگر اس بار شایدعوام کے صبرکاپیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔جس کی محض ایک جھلک بھر گذشتہ دنوں دار السلطنت دہلی میں ہم سب کو دیکھنے کو ملا ۔لوگوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر صرف عصمت دری معاملہ کو لیکر ہی نہیں تھا بلکہ ظلم ،تشدد،غنڈہ گردی،مہنگائی ،بدعنوانی اور مختلف مسائل سے دوچار عوام کا یہ وہ لاوا تھا جوسالوں سے ان کے سینوں میں پل رہا تھا۔تھے جس کے حل کی خاطر لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہرناصرف نکل آئے تھے بلکہ تشدد پر بھی اتارو تھے اور ان کا یہ غصہ اور غم نیوز چینلز ہو یا نیوزپورٹلس، سوشل میڈیاسائٹ ہو یا سڑک، ہر جگہ دیکھنے کو ملا ۔جسے خون کو منجمد کر دینے والی سردلہریں،ٹھٹھرا دینے والی ٹھنڈ ہوائیں اور ہڈیوں کو چیر دینے والا جاڑا بھی پست اورفرو نہیں کر پایا۔اس واقعہ کے بعد جس طرح سڑکوں پر انسانوں کا بحر بے کراں، نوجوانوںکا ہجوم ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباءو طالبات کا انبوہ اور خواتین کی شکل میںجوجم غفیر امڈا اس سے بہر صورت یہ ظاہر ہوگیاکہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ایسی تبدیلی جس سے انھیں امن و سکون ملے اور ان کی زندگی دشوار کن نہ ہو ۔

عدم تحفظ کے خلاف عوام نے اپنے غصے کا اظہار جس طرح حکومت اور نظام کے اہم مراکز پرچڑھکر کیا اسے کسی بھی طرح معمولی نہیں کہا جا سکتا ۔ اس میں شک نہیں کہ صدارتی محل کے سامنے غصہ کا اظہار کے ساتھ جو فساد ہوا اس کے لئے کہیں نہ کہیں پولیسائی طاقت کااستعمال اوراسکی فطرت بھی ذمہ دار ہے۔تاہم ایک جمہوری ملک میںاس بات کو بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا کہ عوام جب مزاحمت اور اظہار کے اپنے حق کا پر امن طریقے سے استعمال کرےںتو اس پرسنگینوں اور آنسو گیس کے گولوں سے قابو پایانے کی کوشش کی جائے۔اس معاملہ کو لیکر حالانکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ لاقانونیت کا کوئی مطلب نہیںبنتا۔ غم وغصہ کا اظہار پرامن اور ڈسپلن طریقے سے ہو سکتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر پالیسی سازی اوراس کے ذریعہ حکومت پر دباو ¿ بنانے میں مدد ملتی ۔ان کے بقول اس معاملہ میں نوجوانوں کا غصہ اگر کنٹرول میں ہوتا تو الگ الگ مطالبات اور قیادت کے فقدان کے باوجود وہ اپنی بات موثر انداز میں کہنے کے قابل ہو سکتے تھے۔ تشدد اور لاقانونیت نے ان سے یہ موقع چھیننے کا کام کیا ۔اس معاملہ میں حالانکہ مبصرین نے یہ بھی کہاکہ ایسی صورت حال کسی بھی حکومت کی طاقت کے بجائے اس کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے عوامی غصہ کا حل مظالم نہیں بلکہ فوری بات چیت کے عمل کے ذریعہ حل پر مضمرہے، ایک منتخب حکومت کو اپنی اس بنیادی سمجھ کو بہر حال بحال رکھنا چاہئے۔

دہلی میں اس سے قبل بھی متعدد احتجاج ہوتے رہے ہیں اس بابتکچھ ماہ قبل بدعنوانی کے خلاف یوگ گروبابا رام دیو اور ان کے حامیوں کے بھوک ہڑتال پر آدھی رات کو ٹوٹے پولسیائی قہر کو اگر ایک استثنائی عمل مان بھی لیں تو، حکومت نے باقی موقعوں پر بات چیت کے ذریعہ ہی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس بار بھی یہ طریقہ اپنایا جا سکتا تھا۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور وزیر داخلہ سشیل کمار شندے اس طرح کی پہل کو آگے بڑھا بھی رہے تھے۔مگر اس پورے عمل کی سنجیدگی اس وقت ختم ہو گئی، جب پولیس نے طاقت کے ذریعہ لوگوں کے غصے پر قابو پانے کا فیصلہ لیا۔ حالانکہ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت نے کہا کہ لوگوں کا غصہ جائز ہے اور پولیس کو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہئے تھا۔اس درمیان سشما سوراج نے کل جماعتی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا تو مایاوتی نے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کی بات کہی۔ اور بعد میں وزیر اعظم نے بھی ملک کو خطاب کرتے ہوئے لوگوں کی ناراضگی کو صحیح بتایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے ایک ایسی زبان میں پیغام دیا جسے عوام نہیں سمجھتی تاہم انھوں نے بھی یہی کہاکہ وہ امن بنائے رکھیں ۔جب حکومت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ لوگوں کا غصہ جائز ہے تو اس کا اظہار کرنے سے روکنے کی کوشش کیوں کی گئی؟اس پر بھی لوگوں نے سوال کھڑے کئے ہیں۔

مختلف ریاستوں کی عصمت دری کی خبریں تقریبا ہر روز آتی ہیں، ان میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں ہیں۔ ان میں سے کسی بھی حکومت کے ریکارڈ سے ایسا نہیں لگتا کہ ایسے واقعات کو روکنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ نہ تو پولیس انتظامیہ کو عورت مخالف تشدد کے حوالے سے حساس بنانے کی پہل ہوئی ہے نہ ایسے جرائم کو روکنے کے دوسرے اقدامات کئے گئے ہیں۔اگر انتخابات کے وقت نامزدگی کے ساتھ دیئے گئے تفصیلات درجنوںکے خلاف بھی جنسی زیادتی کے الزام درج ملیں گے۔ انہیں امیدوار بنانے کا فیصلہ کون کرتا ہے، انہیں تحفظ کہاں سے ملتا ہے؟ اگر جماعتیں واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں پہلے سیاست کو مجرموں سے مکمل طور پر آزاد کرنے کا وعدہ لینا چاہئے۔خواتین کے عدم تحفظ کا یہ مسئلہ محض قانونی نظام سے وابستہ نہیںہے،اور یہ کہ فی ا لوقت سماج کی موجودہ تخلیق بھی اس کے لئے کم ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر خواتین کے مصیبتیں بڑھتی جا رہی ہیں، تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے فہرست اس سے منسلک ہیں۔ عورت کی تصویر اور اس کے استعمال کی بازار وادی رویے کو اگر بے لگام چھوڑا گیا تو پھر اس کے نفرت کے نتائج بھی سامنے آتے رہیں گے۔وقت اور سماج کی نئی بیداری اس خطرے کو بھی سمجھے گی ایسی امید کرنی چاہئے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں حکومت کو کئی بار شہری معاشرے کے تشددکا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس معاملہ کے بعد یہ بھی محسوس کیا جانے لگا کہ جمہوریت میں عدم تشدد کی تحریک شہری مزاحمت کا جوخلا گزشتہ کچھ دہائیوں سے خالی ہو گیا تھا، وہ اب تیزی سے پر ہورہا ہے۔ جو کام بچا ہے، وہ یہ کہ سرکاری نظام کو عوام کے اوپر نہیںبلکہ اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی مشترکہ ثقافت تیار ی ہے۔

اسی سال جولائی میں گوہاٹی میں ایک لڑکی کو سرعام پریشان کیا گیا تھا، اس وقت بھی غصے کا ایک بڑا ابال نظر آیا تھا۔مگر دہلی کے واقعہ کے بعدخواتین کے ساتھ سماج کا ہر طبقہ اب فیصلہ کن طور پر یہ چاہتا ہے کہ حکومت ایسی پالیسی کا فورا نفاذ کرے، جس سے یہ اعتماد بحال ہو کہ خواتین کے تئیںبڑھ رہے مسائل کو لے کر حکومت واقعی سنجیدہ ہے۔ ملزم کو پھانسی کی سزا، ایسے معاملات کی فوری سماعت اور پولیس کی حفاظت کا پختہ بندوبست یہ کچھ ایسے مطالبات ہیں، جنہیں حکومت بھی قابل غور گردان رہی ہے۔ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ عصمت دری کے سنگین معاملات میں زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید کی جگہ پھانسیدئے جانے کے بارے میں حکومت اقدامات کر سکتی ہے۔لیکن معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے کہ کچھ سرکاری اعلان کر دی جائیں اور کچھ کو لے کر عمل شروع کرنے یا کمیٹی بنا دینے جیسی باتیں کہہ دی جائیں۔ جمہوریت کی نمائندگی کرنے والوں کو یہ بات اب ےقےنی طور پر سمجھنی ہوگی کہ وہجمہوری قدروں اور فکر کو نظر انداز لمبے عرصے تک نہیں کر سکتے ہیں۔چھ دہائیوں کے جمہوری تجربے نے عوام کے حصے جو مایوسی اوریاسیت بڑھائی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہعوام اب پہلے کے مقابلے میں نہ صرف مزیدمتفکرہیں بلکہ اپنے حق اورانصاف کو لے کرپہلے کے مقابلہ زیادہ سنجیدہ اور بیدارہیں۔ اس شعور کے انکشاف میں ابھی بھلے کچھ لوگ تنظیمی اور نظریاتی پختگی کی کمی کی بات کریں۔

اس سارے احتجاجی کارکردگی سے حکومت نے عصمت دری اور جنسی زیادتی سے متعلق قوانین کا جائزہ اور ان میں ضروری ترامیم تجویز کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جےےس ورما کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ایک ماہ میں اپنی رپورٹ دے دے گی۔دہلی میں ایسے معاملات کی عدالتی کارروائی فوری عدالتوں میں چلے گی اور دہلی ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ ان کی سماعت روزانہ ہوگی۔ اورچونکہ دہلی اور ملک کے دوسرے حصوں میں جنسی بے راہ روی اور جرم کے حوالے سے عوامی مزاحمت کا سلسلہ اب بھی تھما نہیں ہے لہذا پولیس اور انتظامیہ کو کچھ بھی ایسا کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے لوگ اوربھڑک اٹھیں اور شدد پر اتارو ہو جائےں۔ ایسے موقع پر سب سے بڑی جوابدہی حکومت کی ہے کہ وہ اپنی طرف سے ہر ایسی کوشش کرے جس سے عوام میں خوف کی جگہ ایک اعتماد بحال ہو۔ قانونی بہتر ی اور فوری انصاف کے عمل سے آگے حکومت کو اپنے ایکشن کومثبت طرز عمل میں تبدیلی لانی چاہئے چاہئے ۔ ورنہ
اب کے بھی اک آندھی چلی اب کے بھی سب کچھ اڑ گیا
اب کے بھی سب باتیں ہوئیں لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
والا معاملہ اور وہی ڈھاک کے تین پات والی بات ہوگی ۔جب تک ہماری حکومت ایسے جرائم کی روک تھام کے لئے سسٹم میں شامل انتظامیہ، پولیس، عدالتوں کو ذمہ دار نہیںبنائے گی، اس وقت تک دہلی گینگ ریپ جیسے معاملات پر روک یا قدغن لگانا مشکل ہی ہوگا۔