منگل، 25 ستمبر، 2012

طلبا یونین انتخابات : 2004 پارلیمانی انتخابات کا پیش خیمہ

طلبا یونین انتخابات : 2014 پارلیمانی انتخابات کا پیش خیمہ

محمدعلم اللہ اصلاحی 
http://siyasitaqdeer.com/page3.html
ملک کی دو بڑی یونیورسٹیاں جواہر لال نہرو اور دہلی یونیوسٹی میں بخیر و خوبی الیکشن کا اختتام اور نتائج کے اعلان کو آنے والے 2014میں پارلیمانی انتخابات کا پیش خیمہ تصور کیا جا رہا ہے اور طلبائی تنظیموں سمیت مر کزی سیاسی پارٹیاں بھی اس یونین انتخاباب کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس الیکشن کو لیکر صرف طلباءکے درمیان ہی بحث ومباحثہ کا بازار گرم نہیں ہے بلکہ مرکزی سطح پر بھی سرد جنگ اور لفظی محاذ آرائی کا دور جاری ہے ۔شاید اسی وجہ سے اس طلبہ یونین انتخابات سے جو اشارہ آ رہے ہیں انہیں نظر انداز کرنا تقریبا ناممکن بن گیا ہے۔ دونوں یو نیورسٹیوں میں مختلف وجوہات کو لیکر الیکشن پر پابندی عاید تھی ۔عدالت کی مداخلت کے بعد یہ انتخاب عمل میں آیا ،سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی عدالت نے الیکشن کرائے جانے کا حکم دے رکھا ہے لیکن تا ہنوز جامعہ میں عدالت کے فیصلے کو ممکن العمل نہیں بنایا جا سکا ہے ۔اسی وجہ سے جہاں جے این یو اور ڈی یو کے طلباءاپنے حقوق کو لیکر بے فکر ہیں وہیں جامعہ کے طلباءانتخابات نہ کرائے جانے کو لیکر فکر مندہیں ۔ دونوں یونیورسٹیوں میں فتح پانے والے طلباءاپنے عزائم اور خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تو شکست پانے والے شور اور ہنگامہ۔

دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبا یونین انتخابات کے نتائج سے صاف ہے کہ دونوں ہی یونیورسٹیوں کے طلباءنے فرقہ پرست طاقتوں کو مسترد کیا ہے۔ دہلی میں طلبا یونین کے انتخابات کوئی عام انتخابات نہیں ہوتے۔ پورے شہر میں باقاعدہ تشہیر ہوتی ہے اور ان یونیورسٹیوں میں پورے ملک سے طالب علم آتے ہیں۔یہاں یہ اہم نہیں ہے کہ انتخابات میں جیت کس کی ہوئی ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں کانگریس کی طلباءتنظیم این ایس یو آئی بی جے پی کے اسٹوڈنٹس کے مقابل تھا تو طلبا نے اسے جیت دلا دی جب کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم مضبوط تھا تو انہیں جیت دلا دی۔ غور طلب یہ ہے کہ دہلی یونیورسٹی تو اے بی وی پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جب کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بھی ایک سے زیادہ بار اے بی وی پی کافی مضبوطی کے ساتھ الیکشن لڑ چکی ہے اور صدر کی سیٹ پر بھی قبضہ کر چکی ہے۔

شکست کے بعد بی جے پی نے دونوں جگہ جس انداز سے توڑ پھوڑ اور ہڑتال کی ہے اسے نیک شگون تصور نہیں کیا جا رہا ہے ۔قابل ذکر ہے کہ ان دونوں یونیورسٹیوں میں بی جے پی کو بری طرح شکست ہوئی ہے جہاں جے این یو میں کمیونسٹ پارٹی نے اپنا غلبہ درج کرایا ہے تو دڈی یو میںکانگریس نے ۔دہلی یو نیورسٹی میں کانگریس کی اسٹوڈنٹ ونگ این ایس یو آئی کو شاندار کامیابی ملی ہے اور بھاجپا کی یونٹ اے وی بی پی کا صفایا ہوگیا ہے۔ این ایس یو آئی چاروں سیٹوں میں سے تین جیت گئی ہے۔ 2007 ءکے بعد دلی کی سیاست میں لگاتار کمزور پڑ رہی این ایس یو آئی کو سنجیونی مل گئی ہے۔ این ایس یو آئی اچھے خاصے فرق سے پریسڈنٹ ، وائس پریسڈنٹ اور سکریٹری کے عہدے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔اسٹوڈنٹس انتخابات کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواہے کہ کسی عہدے پر مقابلہ برابر رہا۔ جوائنٹ سکریٹری کے لئے ہوئے چناؤ میں دونوں تنظیموں کو برابر ووٹ ملے۔

دراصل انتخابی نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو پوری طرح سے سکتے میں ڈال دیا ہے اور وہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ آخر طلبا نے یہ کیسا پیغام دیا ہے کے تمام منفی اشوز کے ہونے کے باوجود بھی ان کی حمایتی اے بی وی پی کو نہ صرف زبردست شکست ملی بلکہ اس تنظیم کا صفایا بھی ہوگیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پارٹی کو یہ ہضم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسری طرف این ایس یو آئی کی اس جیت نے کانگریس ورکروں میں نئے پیش رفت کا کام کیا ہے اور انہیں یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ دہلی کے نوجوانوں نے صاف صاف یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ کانگریس پارٹی اور اسکی پالیسیوں کے ساتھ ہے۔ راجدھانی میں انا ہزارے کے ذریعے کرپشن کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں بھاری تعداد میں اس وقت لڑکوں نے ہی شرکت کی تھی جسے لیکر بی جے پی خوش فہمی میں تھی اور اسے لگ رہا تھا کانگریس مخالف نوجوانوں میں لہر ہے اس کا فائدہ انہیں ملے گا اور اس بات کو وہ پکا مان کر چل رہی تھی کہ دہلی اسٹوڈنٹس انتخابات میں تو ان کا پرچم لہرانا طے ہے۔ اے بی وی پی کومحسوس ہوا کہ جس طرح پورے ملک میں کرپشن، مہنگائی سے لوگ پریشان ہیں اس کے چلتے دہلی اسٹوڈنٹس انتخابات میں لوگ این ایس یو آئی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن اس کے امیدوار ہار گئے کانگریس کے طلباءلیڈروں کی اس جیت کو کانگریس کے رہنما آئندہ سیاست کا اشارہ دے رہے ہیں۔ 

پارٹی کے کئی سینئر لیڈروں کی فکر یہ بتاتی ہے کہ متوسطہ طبقہ کے لوگ اور خاص طور سے نوجوان کس سمت میں سوچ رہے ہیں دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبا یونین انتخابات خالص طور پر سیاسی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔ ووٹنگ کے کچھ گھنٹے پہلے ہی جب ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو یہ پختہ یقین تھا کہ این ایس یو آئی نے بہتر حکمت عملی کے تحت چناؤ لڑا اور قومی اشو کو اس چناؤ میں حاوی ہونے نہیں دیا۔ اے بی وی پی کو کوئی خاص مدد نہیں ملی جبکہ کئی سینئر کانگریسی لیڈر چناؤ میں کود پڑے اور ہر سطح پر طلبا یونٹ کو مدد دی۔جس میں پیسہ بھی پانی کی طرح بہایا گیا۔ حالانکہ ضابطہ انتخابات کے مطابق کوئی امیدوار پانچ ہزار سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا لیکن بڑی سیاسی پارٹیوں نےشامل ہو کر یہ کمی بھی پوری کردی۔کانگریس نے اسٹڈنٹس انتخابات کو بہت سنجیدگی سے لیا اور اپنی پوری طاقت جھونک دیا۔ ممبر اسمبلی، کونسلر اور وزیر اعلی سبھی نے مورچہ سنبھال رکھا تھا۔ دہلی یونیورسٹی میں ریزرو زمرے کی خالی سیٹوں کا بھی اشو گرم رہا۔ ان سیٹوں کو اس بار جنرل کیٹگری میں تبدیل نہیں ہونے دیا گیا۔ ایچ آر ڈی وزارت کے حکم پر کالجوں کو زیادہ داخلےملنے کا اثر دیکھا گیا۔ ووٹنگ فیصد بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ گیا۔ مانا جارہا ہے کہ اس سے کافی فائدہ این ایس یو آئی کوملا۔این ایس یو آئی کے ترجمان کا کہنا ہے اے بی وی پی نے دہلی اسٹوڈنٹس انتخابات میں قومی اشوز کو اچھالا اور طلبا کے مفادات والے مسئلےکو پس پشت ڈال دیا جبکہ طلبا نے قومی اشوز کو اہمیت نہیں دی۔

اسٹوڈنٹس انتخابات خاص بات یہ ہے کہ پہلے سال کے طلبا زیادالیکشن میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور انہیں اپنےقریب لانے میں اے بی وی پی ناکام رہی۔ دہلی کی وزیراعلی شیلا دیکشت نے ہاتھوں ہاتھ اس جیت کو بھی کیش کرا لیا۔ انہوں نے اپنی صاف شفاف انتظامیہ کا نتیجہ بتاتے ہوئے طلباءکا جنادیش بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی نے اس چناؤ میں بھی گھٹیا ہتھکنڈے اپنائے اور جھوٹ کے سہارے چناؤ جیتنے کا خواب دیکھا تھا جسے طلبا نے چکنا چور کردیا۔ اب اسے بہانوں کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹوڈنٹس انتخابات جیت سے وزیر اعلی شیلا دیکشت کا قد بڑھا ہے۔ خود وزیر اعلی کی پیٹھ پارٹی صدر سونیا گاندھی نے تھپتھپائی ہے کیونکہ کانگریس مخالف ماحول میں اسے روشنی کی کرن مانا جا رہا ہے۔

اسی طرح جے این یو میں لال جھنڈے کوکامیابی ملی اور بی جے پی اور کانگریس دونوں کو جس طرح شکست ملی ہے اس نے طلباءکے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب سیاست محض مذہب اور ذات کے درمیان الجھ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اب لوگ اس سے پرے اٹھ کر سوچنے لگ گئے ہیں۔شاید اسی وجہ سے ان انتخابات کو پارلیمانی انتخابات2014 کا پیش خیمہ تصور کیا جا رہا ہے ۔ظاہر ہے کہ ان انتخابات سے سیاسی جماعتوں کو ایک پیغام تو ضرور ملا ہے ۔ شاید اسی سبب دہلی میں موجود مختلف قسم کی پارٹیوں کے لیڈروں نے ان انتخابات کو ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف بن رہے ماحول کی علامت بتایاہے۔ حالیہ دنوں میں ملک میں بدعنوانی اور مہنگائی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے خلاف جو ماحول بنا ہے،دہلی اسٹوڈنٹس انتخابات اور جے این یو طلبہ یونین انتخابات میں اس کا عکس دیکھاگیا۔ لوگوں کا سیاسی جماعتوں سے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور عام لوگوں کا خیال ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بدعنوانی میں ڈوبے ہیں اور عام آدمی کے مفادات کو وہ مسلسل نظر انداز کر رہی ہیں۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ کوئلہ کانوں کے تقسیم کے علاوہ دو دن پہلے ڈیزل اور رسوئی گیس کو لے کرحکومت کے فیصلوں کا اثر بھی ان دونوں انتخابات پر پڑا ہے ۔