جمعرات، 9 اگست، 2012

ضیا اعظی اور اس کا عکس خیال



ضیاء اعظی اور اس کا عکس خیال

 محمد علم اللہ اصلاحی

تصویر: ضیاء اعظمی 
اردو زبان کی تاریخ ا گرچہ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجوداتنی کم مدت میں اس زبان نے لوگوں کے دلوں میں جو جگہ بنائی ہے وہ دراصل اس کی چاشنی اور لطافت کے سبب ہے اور اس کی اس خوبی کو بر قرار رکھنے میں بڑی حد تک ان تخلیق کاروں کی خدمات کو دخل ہے جو بغیر کسی نام و نمود کے دیار غیر میں بھی رہ کر اس زبان کی آبیاری میں مصروف ہیں،ایسے حالات میں کسی زبان کے بارے میں س خدشہ کا اظہار کرنا کہ یہ زوال پذیر ہے قطعاً درست نہیں ہوگا کیوںکہ اس کے چاہنے والوں نے اس کی تاثیر کوصرف اپنوں ہی تک محدود نہیں رکھا بلکہ غیروں کو بھی اس سے متاثر کیا ہے ،جبھی تو بر صغیر ہی کی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ زبان نہ صرف بولی ،پڑھی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ اس کی تہذیبی روایات بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ باقی ہیں اور وہاں بھی رسائل و جرائد کے علاوہ باقاعدہ اردو زبان میں ریڈیو و ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ مشاعرے کا بھی رواج زندہ ہے جو کسی بھی زبان کے بقاءکی ضمانت کے لئے کافی ہیں، لیکن اس ماحول میں جہاں لوگ اس سے بہت زیادہ آشنا نہ ہوں اور انھیں خود اپنی زبان کے بقاء کی فکر ہو اپنی حیثیت تسلیم کرا لینا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔

خیالوں میں گم اپنے آفس میں نوجوان شاعر ضیاء اعظمی۔

لیکن بعض لوگوں نے وہاں بھی ا پنی شناخت قائم رکھی ہے اردو ادب و شاعری کے چراغ کوروشن کیا ہے، ان میں ضیا ءالرحمان ضیاء اعظمی بھی ہیں جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ،پرورش اور تعلیم بھی یہیں ہوئی، لیکن معاشی مسائل نے انھیں یہاں جگہ نہیں دی اور وہ اسی کی تلاش میں دیار غیر یعنی سعودی عرب پہنچ گئے لیکن تصنیف و تالیف اور شاعری کا ذوق وہاں بھی مدھم نہیں پڑا اور اپنے اس شوق کو وہاں بھی انھوں نے بر قرار رکھا وہ خود کہتے ہیں ”خامہ فرسائی کا شوق تھا اس لئے مدرسہ سے فراغت کے بعد ادارہ تحیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستگی اختیار کی لیکن وہاں کے انتظام سے اطمینان نہ پاکر دارالمصنفین اعظم گڑھ کا رخ کیا شبلی منزل کی فضا، رفقا کا انکسار، ناظم ادارہ مولانا ضیا ءالدین اصلاحیؒ کی شفقتوں نے گرویدہ کرلیا، کم تنخواہ کے باجود تقریباً چارسال تک پروف ریڈر کی حیثیت سے وہاں خدمت کی، گو آج مےں وہاں نہیں  ہوں پھر بھی خود کو وہیں تصور کرتاہوں، مجھے وہاں کے در و دیوار تک سے عشق ہے، کیوں  کہ وہ شبلی کا دیار ہے اور مجھے شبلی، ان کے فکر ، ان کی تحریر اور ان کے شعور سے عشق ہے جن کے فےض سے مدرسة الاصلاح کا تعلیمی خاکہ دیگر روایتی  مدارس سے فائق، منفرد اور قوم کے لئے مفید ہے۔ لیکن ان ذمہ داریوں سے کیوں کر دست کش ہواجائے جو گھر کے بڑے پر عائد ہوتی ہیں، چناں چہ تلاش معاش کے لئے دل میں دارالمصنفین سے علاحدگی کا 
غم لے کر نکل پڑا اور آج تک تلاش معاش اور غم فراق ساتھ چل رہے ہیں“۔




.اپنے آبائی وطن دوباواں میں ضیاءاعظمی  
شعر و سخن کا ذوق انھیں ورثہ میں ملا ہے جس کا اعتراف ضیاء خود ان الفاظ میں کرتے ہیں ” شعر وسخن سے لگاﺅ مجھے والدین سے ملا،بچپن مےں اپنے والد کے پاس سوتاتھا، جب تک ان سے کوئی غزل نہ سن لوں مجھے نیند نہیں  آتی تھی، دن کے اوقات میں امی ابوالاثر حفیظ جالندھری کی” شاہنامہ اسلام“ بڑے درد وسوز سے پڑھتی تھےں، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب امی حضور سفرطائف کے واقعات پڑھ رہی تھیں تو زارو قطار رو رہی تھےں،امی کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگا، مجھے بھی احساس تھا کہ یہ رونا کیوں کر ہے، تربیت کے ان ہی مراحل سے گذر کر مذہبی شعور مےں پختگی آئی اور اللہ اور اس کے رسول اکی محبت نے دل میں گھر کر لیا  ساتھ ہی ریاض شعر وسخن کی آبیاری بھی ہوئی، مولانا ابوہارون مجاہداعظمی نے عروض کی درستگی کرائی اور استاذ محترم مولانا انیس احمد اصلاحی نے حوصلہ افزائی اوراصلاح کی، یوں”نکھرتاہے مزاج روزگار آہستہ آہستہ “کے مصداق ذوق پروان چڑھا اور شعر موزوں کرنے کی یک گونہ اہلیت ہو ئی، ویسے بھی قلبی تسکین  اور زندگی سے وابستگی سے اظہارکے لےے ہی شاعری سے شغف ہے، ممکن ہے اس میں کسی کے لئے افادیت کا کچھ مواد بھی ہو جس کی مجھے خبرنہیں، انسانوں کی اس بھیڑ میں قحط الرجال کا 
:رونا کچھ اس طرح ہے

ادائے دل بری سے فصل لہراتی ہے کھیتوں میں 
مگر باد خزاں میں اے خدا تاثیر کتنی ہے
بھری ہیں بالیاں بیجوں سے
لیکن بیج ہلکے ہیں 
گاوں کی سبزہ زاروں کا نظارہ کرتے ضیا اعظمی 
ضیا ءاعظمی نے شاعری کے تقریبا تمام ہی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور حمد و نعت کے ساتھ نظم ،غزل،مرثیہ ،مدح ،قطعہ اور ترانوں کے دفاتر جمع کر دئے ہیں، جس میں انھوں نے زندگی کے حقائق کو خوش اسلوبی سے برتنے کی کوشش کی ہے ،یہ الگ بات ہے کہ اس میں تنقید اور بحث کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے باوجود ضیاء اپنی نظموں اور ترانوں کے ذریعہ مسلمانوں کوعظمت رفتہ اور نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں کامیاب رہے ہیں ،عام طور پر حمد اور نعت گوئی میں شعراءفرق نہیں کر پاتے اور اچھے اچھے اس میں کہیں نہ کہیں گرفت میں آ ہی جاتے ہیں لیکن ضیاء یہاں بھی اپنے دامن کو 
  : بچا لے جاتے ہیں ،ان کے یہ نعتیہ اشعارملاحظہ ہوں


دعا ئے    خلیل  اور   نوید  مسیحا   ، ذرا  دیکھئے  کیا  اثر  لا ر ہی  ہے
وہ  فاراں کی چوٹی سے رحمت کی بدلی،اٹھی جارہی ہے  بڑھی جارہی ہے
سراپا   محبت   ،   سراپا   عنایت   ،  سراپا  شرافت    ،     سراپا  سخاوت
یہ  بزم  نبوت ہے  ،   شمع رسالت  ،   ہدایت  کے   انوار    پھیلا رہی  ہے
مشام   رگ جاں م عط ر ہیں  میرے ،   سلامت  رہے   گلشن  دین  و ایماں
ضیاء وہ لگن میرے دل میں لگی ہے،تپش جس کی سورج کو گرمارہی ہے

ضیا ء الرحمان ضیا ء اعظمی کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی شاعری بڑے اور قادر الکلام شعراءکی یاد تازہ کردیتی ہے ،ضیاءکی پیدائش 15 کتوبر 1981 کو اعظم گڈھ کے ایک چھوٹے سے گاوں دوباواں میں ہوئی ،ضیاء اپنی  شاعری کے بارے میں کہتے ہیں

 ضیا اعظمی خوشگوار موڈ میں 
.چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے
کم سنی میں  یہ تن و توش  الٰہی توبہ
کون ہووے گا بڑھاپے میں سہارا  کہئے
چھوڑ  کر جام و سبو، ذکر  بہاراں کیسا
گرکہیں ہے یہ چلن،کیوں اسے زیباکہئے
لوگ کہتے ہےں گہرہائے ندامت جن کو
باعثِ  خو   شنو دی   بارِ   الٰہا    کہئے


:ایک جگہ اور کہتے ہیں

نہ  یہ    داستان   غم   ہے ،  نہ   فسانہ   محبت
نہ  ہے  گیت  بل   بلوں   کا  ، نہ   ترانہ   محبت
ائے خدائے عشق مجھ پر،یو ں تمام کردے نعمت
میرے دل میں بھر دے  سارا،   تو  خزانہ  محبت

شہر اعظم گڈھ کے شبلی منزل ( دارالمصنفین ) میں گذارے ہوئے ایام کو کچھ 
 : اس انداز میں یاد کرتے ہیں


سرزمینِ حجازِ اعظم گڈھ
تیری صبحیں بڑی سہانی ہیں
اےک گھر سےنکڑوں ہیں دروازے
اور سب محوِ دُرفشانی ہےں
جوئے تخئیل ہے رواں یثرب
گویا آئینے پانی پانی ہیں

مدینۃ الرسول میں ضیا اعظمی
ضیاءالرحمان اعظمی نے اپنے دونوں ناموں یثرب اورضےاءکوتخلص کے طور
 پر اپنایا ان کی نانی جان نے ان کا نام ےثرب تجوےز کےاتھااور والد محترم نے ضیاءالرحمن اور الحمدللہ آج وہ اسی ملک میں مقیم ہیں جہاں یثرب (مدینة الرسول ) کی زےارت کا شرف اللہ کے فضل سے جب چاہں ممکن ہے،مذہبی شعور اور مذہب سے والہانہ وابستگی کا اظہار ان کی شاعری مےں بڑے دل کش انداز مےںنظر آتاہے، 
:کہتے ہیں







وہ اک نوشتہ جس کی سرخیاں ہمارے  نام ہیں 
ہمارے  ذمہ جو بھی ہیں وہ اہمیت کے کام ہیں
ہے  گل  بہار  خیمہ  زن  ہما رے  انتظار  میں
رسول اس کے پھر رہے ہیں کوچہ  ودیار میں
ہم ایسی  راہ  پر ہیں دونوں سمت خار زار ہے
لہو   لہو   ہے  جسم  اور  لباس  تار  تار  ہے
ضیاء  یہی  وہ  راہ  ہے، چلے  جو راہ یاب ہو
سفر   کے   اختتام   پر   گلاب   ہی  گلاب   ہو



ضیاءکی شاعری میں حقیقت کی منظر نگاری کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ
:قاری اسی میں کھوکر رہ جاتا ہے دیکھئے ان کا یہ اچھوتا شعر

چھوٹے جو قفس سے ہم، زنداں میں پڑے جاکر
وسعت  کی   فراوانی  پر  خود  کو  رہا  سمجھے

ضیاء اعظمی کی شاعری کا ایک خوبصورت نمونہ 
اس میں” وسعت کی فراوانی “کی تعبیر کو ضیاء نے جس انداز میں برتا ہے یہ ان  ہی کا حصہ ہے ۔ان یاروں کو جو دوستوں ہی کو زک پہنچاکر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے دنیا جہان کی نعمت پالی اس پر ضیاء کچھ اس انداز سے طنز کرتے ہیں ۔


دل پرلگائے زخم اور اس پر ہنساکرےکوئی
ایسا نصیب سے ملے دل بر خدا کرے کوئی



ضیاء کی شاعری زمینی حقائق سے جڑی ہوتی ہے چوںکہ انھوں نے خود غربت کو قریب سے دیکھا ہے اورغربت ہی کی وجہ سے انھیں وطن عزیز کو چھوڑ کر دور درازکا سفر کرنا پڑا اس لئے وہ ایک غریب انسان پر گزرنے والے احساسات سے اچھی طرح واقف ہیں تبھی تو وہ کہتے ہیں ۔

نہیں  ہنستا  کسی  کی   خستہ حالی  فاقہ  مستی  پر
بہت دیکھی ہیں چھوٹی عمر میںً مجبوریاں میں نے


محبت جسے آج کی ترقی یافتہ دنیا کوڑیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی یعنی بازار ِجنس میں ان گہر پاروں کی وہ ارزانی ہے کہ خود خریدار بسا اوقات پس و پیش میں پڑ جاتا ہے لیکن ضیاءکہتے ہیں ۔
  
کوئی چھیڑے بھلا کیوںکر ہمیں یاد ِمحبت میں
جبیں خم ہے ہماری  آج پھر  ان کی عقیدت میں
تصور اور ہے ،تصویر  جاناں  اور ہی شے ہے
جدا ہیں مرتبے سب کے ، نگاہ ِذوقِ الفت میں

ضیا اعظمی کی تحریر کا ایک عکس 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ضیاء کی شاعری اپنی ندرت اور تخلیقیت کی بنیاد پر نمایاں مقام رکھتی ہے اور انھوں نے اتنی کم عمری میں بھی عمدہ شاعری کی ہے لیکن ان سب کے باوجود بعض جگہ کمیاں اور خامیاں بھی پائی جاتی ہیں ،میں نے اس سلسلہ میں ادب اور شاعری کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جن چیزوں کو شدت سے محسوس کیا ہے وہ ان کے کلام میں عربی و فارسی کے ثقیل اور بھاری بھر کم استعارات و مرکبات کا استعمال ہے ، اس کی وجہ جو بھی رہی ہو لیکن پورے کلام میں فارسی و عربی کی عمیق ترکیبیں اس کثرت سے در آئی ہیں کہ قاری الفاظ کے پیچ و خم میں ہی الجھ کر رہ جاتا ہے جس سے کہنے والے کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اورظاہر ہے ایک تخلیق کار جس کے لئے اپنی تخلیق پیش کرتا ہے وہی اسے نہ سمجھے تو اس بات کا کم ہی امکان رہ جاتا ہے کہ وہ تخلیق عوامی یا پھر لوک ادب کا حصہ بن سکے گی،ہاں اگر صرف ناقدین ادب کے لئے ہی شاعری کی جاتی ہے تو ضیاء کا ایسی ترکیبیں استعمال کرنا کچھ معیوب نہیں، کیوں کہ ترکیبیں جس قدر معنی آفرینی کرتی ہیں سادہ زبان ویسے گل نہیں کھلاسکتی۔

اسی طرح ایک اور چیز جو اکثر جگہوں پرکھٹکتی ہے وہ یہ کہ ضیاءشعری وزن کی ہمواری ، آہنگ و عروض کا خیال رکھنے اور شعر کو وزن میں باندھنے کے لئے بعض غیر ضروری تراکیب اور الفاظ بھی استعمال کر جاتے ہیں،جو فن شاعری میں معیوب ہے،لیکن ان سب کے باوجود ضیا نے بڑی خوبی سے ان اضافی چیزوں کو بھی نبھانے کی کوشش کی ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ضیاءکی شاعری کوزبان وادب کی خدمت کے طور پر قبول فرمائے ۔
(آمین)