جمعرات، 9 اگست، 2012

جھگی والوں کے بغیر محلوں میں رونق نہیں


جھگی والوں کے بغیر محلوں میں رونق نہیں 
محمد علم اللہ اصلاحی

 ملک میں غریبوں کی تعداد گھٹانے اور بڑھانے کا کھیل کافی عرصہ سے چل رہا ہے۔وہیں گاو ¿ں سے نقل مکانی کر روٹی کے لئے ہر طرح کا ظلم اور درد سہنے والے شہروں میں جھگی جھونپڑی کے باشندوں کی ترقی کے نام پر انہیں وہاں سے ہٹانے کی سازش پورے ملک میں جاری ہے۔ کبھی بھی جھوپڑیاں اجاڑ دی جاتی ہیں۔ چاہے وہ بارش کا موسم ہویا کپکپاتے ٹھنڈ کا۔گزشتہ دن بھی جنوبی دہلی کے جامعہ نگر علاقہ میں ایساہی کچھ ہوا جس میں پر اسرار طور پر آگ لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے وہاں پر موجود تقریبابیس جھگیوں کو اپنی زد میں لے لیاجس میں ایک معصوم بچہ سمیت تین افراد زندہ جل کر راکھ ہو گئے جبکہ دیگر سات سے بھی زائد افراد کو سنگین زخمی حالت میں ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جہاں وہ موت و حیات کی زندگی گزار رہے ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے حادثہ کو نہ تو ہندی و انگریزی اخبارات نے کوئی جگہ دی اور نا ہی دن رات عوام کے حق کی بات کرنے کا دعوی اور مستقبل کی بابت پیشن گوئی کرنے والے چینلوں نے کوئی اہمیت دی۔ابھی تک متاثرین کیلئے کسی سرکاری امداد کا اعلان بھی نہیں کیا گیا ہے حتٰی کہ علاقہ کے ایم ایل اے اور ایم پی بھی اس سلسلے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور ایم ایل اے کی جانب سے محض ڈھائی ہزار فی کنبہ ادا کرکے پلا جھاڑ دیا گیا ہے۔شاید اسی لئے ابھی تک یہ آگ کیسے اور کیوں لگی کسی کو معلوم نہیں ہو سکا ہے ۔تاہم مقامی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ آگ زمین مافیا اور بلڈروں نے لگائی ہے جن کی نگاہ میں یہ جھگیاں خار بن کر کھٹکتی رہی ہیں ۔اب اس میں کتنی حقیقت ہے یہ تو حکومت ہی بتا سکتی ہے لیکن اگر اس میں ذرہ برابر بھی واقعی سچائی ہے تو یہ کہنے میں مجھے کوئی تامل نہیں کہ یہ طبقہ ایسا اس لیے کر پاتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے اس کا نا تو حکومت کوئی نوٹس لیگی اور نا ہی یہ لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے اہل ہونگے ۔قابل ذکر ہے کہ اسی علاقہ میں جب دوسرے لوگوں کے غیر قانونی تجاوازات ہٹانے کی بات آتی ہے تو یہی سرکاری عملہ اس پر ہاتھ بڑھانے تک کی ہمت نہیں جٹا پاتی۔

 ایسے میں سماج کا یہ طبقہ کہاں جائے اور کیا کرے اس جانب سوچنے کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ دیہات تو چھوڑیے ملک کے تمام ہی شہروں میں جھگی جھونپڑی میں رہنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے بلکہ ایک تخمینہ کے مطابق ملک میں کل آبادی کا 55 فیصد لوگ جھگی بستیوں میں رہتے ہیں۔ملک میں بڑھتی مہنگائی اور کرپشن نے پہلے ہی ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے ،اسکیمیںگرچہ غریبوں کے لئے بنائی جا رہی ہیں لیکن اس کو سرکاری افسران اور حکومت کے دیگر ذمہ داران اپنی جاگیر سمجھ رکھے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ ان کی حالت دن بدن بد سے بستر ہوتی جا رہی ہے ،پیٹ پالنے کے لئے گاو ¿ں سے نقل مکانی کر شہر پہنچنے والے ان مجبوروں کی۔ اب تو جھگیوں میں بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔یہاں زمین اتنی مہنگی ہے کہ اس کے آس پاس کوئی غریب یا عام خاندان زمین خرید ہی نہیں سکتا۔ گھر بنانے کی بات تو خواب دیکھنے جیسا عمل ہے۔ ایسے حالات میں صبح تاشام سخت محنت کرنے والا یہ طبقہ ریلوے کی پٹریوں کے آس پاس زندگی کے بقاءکی تلاش کر رہا ہے توآبادی سے دور کوڑے کرکٹ کی آماجگاہ میں، جہاں ان کی زندگی جہنم کدہ بن کر رہ گئی ہے۔اس میں کبھی خطرناک بیماریوں کی وجہ سے ان بے چاروں کی موت ہو جاتی ہے ، تو کبھی آتشزدگی کا شکار ہوکر غریب دم توڑ دیتے ہیں۔ ان سب سے بچتے ہیں تو ٹرین کی پٹریوں میں روندے جاتے ہیں۔بے چاروںکی جھونپڑی کب اجڑجائے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔اپنے آپ کو ملک کا مسیحا کہنے والے سیاسی قائدین بھی ان کا خوب خوب استحصال کرتے ہیں کبھی اپنے مجمع میں بھیڑ اکٹھا کرنے کے لئے انھیں بلوایا جاتا ہے تو کبھی دنگا اور فساد کے لئے ان کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اور جب ان محصولین کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو اپنے لئے لقمہ تر بھی انھیں بھولے بھالے لوگوں کو بنایا جاتاہے۔

 حالانکہ ایسے لوگوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سماج کا یہ طبقہ اگر شہر میں نہ رہے تو ایک سنگین صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اوریہ واقعتا اپنے آپ کو مسیحا اوررئیس سمجھے جانے والے طبقہ کے لئے ایک نادرست عمل ہوگا۔کیونکہ جھگی جھونپڑی میں رہنے والے لوگوں سے ہی ان کے محلوں میں رونق آتی ہے ۔اسے اسی بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ برتن دھونے ، کپڑے دھونے ، پوچھا لگانے سے لے کر اور بھی چھوٹے موٹے گھریلو کام کرنے خانسہ ماںیا نوکرانی گھر نہیں آتی تو انکی کیا حالت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود کو رئیس سمجھے جانے والے لوگوں کو ان غریب لوگوں کے بغیر سینما گھروں اور باغیچوں میں چین کا ایک پل بھی گزارنے کے لئے وقت نہیں ملے گا۔ اس کے بعد بھی جھگیوں میں بسنے والے اس طبقے کے بارے میں ایمانداری سے کوئی مثبت رویہ نہیں اپنایا جا رہا ہے اور نا ہی ان کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بدقسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ پہلے سالانہ منصوبے میں ملک کے لئے جھگیوں میں رہنے والے لوگوں کو ایک دھبہ کہا گیا تھا۔اور اس دھبے کو مٹانے کے لئے کئی خوبصورت اسکیموں کا اجراءعمل میں آیا تھا لیکن ہمیشہ سماج کے اس طبقے کے لئے کاغذوں میں منصوبے محض بنتے اور بگڑتے ہی رہے ۔

 گزشتہ سال مرکزی رہائش اور غربت ہٹاوزیر کماری شےلجا نے کہا تھا کہ پانچ برسوں کے اندر اندر شہروں کو جھگی جھونپڑی سے آزاد کیا جائے گا۔ اس کے لئے راجیو گاندھی کی رہائش منصوبہ کے تحت گھر بنائے جائیں گے۔ لیکن اب تک سالوں گزرنے کے باوجود اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے کہ اس طبقے کی ترقی سماج کا روشن اور خوشحال طبقہ نہیں چاہتا ہے۔ تبھی تو لاکھوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور غریبوںکے لئے بنی پلاٹیں امیروں کے نام ہو جاتے ہیں ۔یہ کوئی کہاوت یا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسا ملک کے دارالحکومت میںگزشتہ دنوںہی ہو چکا ہے ،جس پر کافی لے دے بھی ہوئی ہے ۔اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا بھی یہاں پر غلط نہیں ہوگاکہ سماج کا رئیس طبقہ ان کی ترقی اس لیے بھی نہیں چاہتا کہ اگر جھگی بستیوں میں رہنے والوں کی ترقی ہوئی تو ان کے گھر کام کاج کرنے کون آئے گا اور جب وہ ترقی کے راستے پر ہوں گے تو ان کا استحصال کرنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ اور یہ بھی کہ حکومت غریبوں کو ابھی بھی ملک کے لیے ایک داغ ہی سمجھتی ہے جو وقت وقت پر اس کے سلوک سے دکھائی دیتا ہے جو درحقیقت ملک سے غربت ختم کرنے کی نہیں بلکہ غریبوں کو ہی ختم کرنے کی حکمت عملی اور سازش کا حصہ دکھائی دیتاہے۔

  دہلی کے اوکھلا سمیت متعدد جگہوں پر دولت مشترکہ کھیلوں کے وقت سے لیکر اب تک کی ہونے والی واردات نے کچھ ایسی ہی صورتحال دکھائی ہے۔ بحیثیت صحافی جھگی جھونپڑی بستیوں میں اپنے متعدد دوروں کے دوران میں ان ہزاروں لوگوں سے مل چکا ہوں ، جو چاہتے تھے کہ انہیں بہتر کیفیات میں جینے کا موقع ملے اور وہ اپنی اس ذلت و مشقت بھری زندگی سے باہر نکلنے کے خواہاں تھے اور ہیں،میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کو پڑھانا لکھانااور ترقی پذیر ہندوستان میں اپنی حصہ داری نبھانا چاہتے ہیں۔ لیکن اسے ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ حکومت بجائے انھیں اس کا موقع فراہم کرنے کے ان کے خلاف ہی اقدامات کرتی رہی ہے ۔بات صاف ہے نوکرشاہی اور ملک کا موجودہ نظام غربت اور تنگ دستی کی زندگی جینے والوں کو براہ راست شہروں سے غائب کر دینا چاہتا ہے۔ اگر ایمانداری سے آنکھیں کھول کر اس طبقہ کی ترقی کے لئے کام ہوا ہوتا یا ابھی بھی ہو توہندوستان دنیا کا نمبر -1 متحدہ طاقت بن سکتا ہے،جو کسی بھی ملک کو ناکوں چنے چبوا نے کے لئے کافی ہے۔ ان جھگی بستیوں میں صلاحیت و قابلیت کی بھی کمی نہیں ہے۔ کیونکہ ملک کے مختلف اہم کورسیز میں داخلہ اور مقابلہ جاتی امتحانات میں ایسے بچوں کی نمایاں کامیابی ہم اکثر اخباروں اور ٹیلی ویژن میں پڑھتے رہتے ہیں جسے کوئی اور نہیں بلکہ یہی میڈیا دکھاتی اور بیان کرتی ہے ،یہاں مس ورلڈ اور مس ایجوکیشن بننے کی قابل لڑکیاں اور باکمال و با صلاحیت نوجوان بھی رہتے ہیں جنھوں نے کھیل سمیت علوم و فنون کے مختلف میدانوں میںاپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ایسی چیزوں کی جھلک ہمیں فلموں کے ذریعہ بھی دکھتی رہی ہے اور فلم ”سلم ڈاگ ملینئر“اور” دھوبی گھاٹ “نے تو اس کی مکمل عکاسی کر دی ہے جسے کسی بھی طرح محض مجازی نہیں کہا جا سکتا بلکہ بہت حد تک اس میں حقیقت ہے ،اس کے باوجود ارباب حل و عقداس سے آنکھیں چرانے میں لگے ہوئے ہیں ۔جسے کسی بھی طرح مثبت طرز فکر کی علامت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
ختم شدہ